دھرنوں کی سیاست

یاور عباس
پاکستان جس ولولہ ، جوش و خروش سے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں امن ، خوشحالی ، مذہبی و سیاسی آزادی ، تعلیم و ترقی کے مواقع میسر آئیں گے پتہ نہیں کس بدنظر کی نظر لگی کہ ہر چیز اُلٹ ہی دکھائی دے رہی ہے ، اخوت ، مساوات اور رواداری کو فروغ دینے کا عزم لے کر تحریک پاکستان کے قائدین نے قیام پاکستان کے لیے نہ صرف انتھک جدوجہد کی بلکہ جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے ، پاکستان کے اغراض و مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کامیابی کا فارمولہ بھی پیش کیاتھا اور وہ تھا ’’ ایمان ، اتحاد ، تنظیم ‘‘۔ بدقسمتی سے آج ملک میں امن ناپید ہوچکا ہے ، خوشحالی ہے مگر صرف اشرافیہ کے لیے98فی صد عوام اب تو ضروریات پوری کرنے کے چکر میں ہیں اور ان میں سے کم و بیش 50فیصد لوگ وہ ہیں جو صرف بجلی و گیس کے بل پورے کرنے کے چکر میں ہیں ، یہاں مذہبی آزادی ہے نہ ہی سیاسی۔ تعلیم کے میدان میں ہم کتنے پیچھے رہ گئے ہیں سب جانتے ہیں آج ہر نوجوان حصول علم کے لیے یورپ کا رُخ کر رہا ہے اور نوجوان اپنا معاشی مستقبل مغربی ممالک میں دیکھ رہے ہیں ، جہاں آزادی ، انصاف ، تعلیم ، امن عامہ کی صورتحال بہتر نہیں ہوگی وہاں ترقی کدھر سے آئے گی ؟۔
ہماری 76سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو نصف مدت مارشل لا کے زمانے میں گزر گئی اور بقیہ مدت نیم جمہوری حکومتیں رہیں، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں نے بالادستی کے چکر میں ملک کو دو ٹکڑے کروا لیا مگر پھر بھی ہم نے تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آتی جس کے دور میں احتجاج ، دھرنے نہ ہوئے ہوں ۔ ایسی صورتحال میں ملکی معیشت کا پہیہ کیسے چل سکتا ہے ؟ بادشاہت کا نظام پارہ پارہ محض اس وجہ سے ہوا کہ لوگوں کو بنیادی حقوق نہیں مل رہے تھے ، لوگوں نے انقلاب کے لیے جدوجہد کی اور دنیا کے بیشتر خطوں سے بادشاہت کے نظام کو زمین بوس کر دیا، بادشاہی نظام اور طاقت کے نشے میں عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں حکمرانوں کے انجام ہر صاحب منصب آدمی کو پڑھ لینے چاہیے تاریخ میں وہی لوگ اچھے ناموں کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں جنہوں نے عوامی خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا ، عوام کے دکھ سکھ میں ان کی دلجوئی کی اور رعایا کو سہولتیں بانٹیں مگر خود تکلیفیں برداشت کیں ۔ موجودہ حکومت کو ابھی 6ماہ بھی نہیں گزرے کہ لوگ مہنگائی ، بجلی کے بلوں کے باعث خودکشیاں کرنا شروع ہوگئے ہیں ۔ ان حکمرانوں کی گزشتہ 18ماہ کی کارکردگی سے لوگ اتنے مایوس تھے کہ یہ لوگ عوام میں جاکر ووٹ بھی نہیں مانگ سکے اور عوام نے انہیں بری طرح مسترد کر دیا مگر کمال ہوشیاری سے فارم 47کے ذریعے ایک ایسی حکومت کھڑی کردی گئی جس نے عوام کو معاشی گرداب سے نکالنے کی بجائے بجلی ، تیل ، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور بے تحاشا ٹیکسوں کے نفاذ کے ذریعے عوام کا جینا محال کر دیا ، حکومت نے اپنی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو احتجاج سے روکنے کے لیے ہزار تدبیریں کر رکھی ہیں جس کی کسی جمہوری معاشرے میں گنجائش نہیں ہونی چاہیے ۔
جماعت اسلامی پاکستان نے 26جولائی کو اسلام آباد کا رُخ کرنے اور دھرنا دینے کا اعلان کیا تو ان کے ساتھ بھی پی ٹی آئی سے ملتا جلتا سلوک نظر آنے لگا ، پنجاب میں 3دن کے لیے دفعہ 44کا نفاذ کرنا اورجلسہ و جلوس جیسی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا جمہوریت نہیں بلکہ آمرانہ فعل ہے ۔ اسلام آباد کے راستے بند کرنا ، ریڈ زون کو کنٹینرز لگا کر بند کرنا، کارکنان کی گرفتاریاں اور گھروں پر چھاپے جیسے پرانے حربے اب جماعت اسلامی پر بھی آزمائے جارہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی دھرنا کرنے میں کامیاب ہوپاتی ہے یا پھر ریاستی جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے، جماعت اسلامی کے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ دھرنا کب تک چلے گا اور کیا یہ حکومت کے خاتمہ کی تحریک بھی بن پائے گا یا ماضی کے مختلف سیاسی جماعتوں کے دھرنوں کی طرح ناکام ہی ثابت ہوگا؟ ابھی چند دن پہلے ایک مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک کو پروٹوکول کے ساتھ احتجاج کرنے اور دھرنا دینے جیسی سہولیات دوسری جماعتوں کو بھی حق حاصل ہونا چاہیے وگرنہ حکومتی حمایت والے دھرنے مشکوک ہوجائیں گے ۔ جماعت اسلامی جس ایجنڈے پر آج دھرنے دے رہی ہے ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اسی ایجنڈے پر حکومتی جماعتیں دھرنے دیتی رہی ہیں ، جمہوریت میں مخالفین کا مقابلہ قوت سے کرنے کی بجائے کارکردگی اور عوامی خدمت کی بنیاد پر کرنا چاہیے ۔ پاکستان کے حالات جتنے بھی گئے گزرے ہیں مگر پھر بھی لوگ کبھی مایوس نہیں ہوئے ، سیاسی جدوجہد کرنا ، اپنے حقوق کے لیے ماریں کھانا یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام مایوس نہیں ہیں جس دن عوام مایوس ہوگئے یقین جانیں احتجاج نہیں ہوگا چاہے ایک ایک بندہ روزانہ حکومت ذبح بھی کرنا شروع کر دے ، اپنے حقوق کی خاطر عدالتوں اور سڑکوں پر آواز اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ مایوس نہیں ہیں ابھی بھی بہت سارے لوگ اس امید پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اس ملک میں اشرافیہ کے لیے جگہ تنگ کردی جائے گی ، لوٹی ہوئی دولت واپس ہوجائے گی اور ہر طرف خوشحالی کا دور ہوگا، شاید اسی خوشحالی کی خاطر عوام 76سالوں سے اشرافیہ کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق جدوجہد میں مصروف عمل رہتے ہیں ۔
پاکستان کی ترقی، خوشحالی ، مضبوط جمہوریت کے لیے سیاستدانوں ، ریاستی اداروں کو اپنی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور ملکی ترقی، معاشی، سیاسی استحکام اور عوام کی خوشحالی کی خاطر ضد چھوڑنی پڑے گی اور شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے عوامی خواہشات کے مطابق منتخب لوگوں کو حکومت سونپ کر ہر ادارے کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملکی ترقی میں ہاتھ بٹانا ہوگا یقین جانیں جس دن لوگوں کو عدالتوں سے انصاف اور ریاست سے ماں جیسا پیار ملنا شروع ہوگیا، چند خاندانوں کی بجائے عوامی خوشحالی کے منصوبے شروع ہوگئے، آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دے کر ملک میں تعلیم روزگار فراہم ہونا شروع ہوگا تو مغربی دنیا کی طرح دھرنوں کی سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا۔





