برآمدات کے فروغ کے لئے اقدامات

ضیاء الحق سرحدی
پاکستان کو آزاد ہوئے 76سال ہوگئے ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسے خطے سے نوازا جو قدرتی وسائل میں خود کفیل ہے اور ہم قدرتی وسائل میں اتنا مالا مال ہیں کہ اگر ان 76سالوں میں صرف قدرتی وسائل جن میں گیس، پانی، کوئلہ، معدنیات اور دیگر وسائل شامل ہیں پر ہی توجہ دی جاتی تو آج ہمیں کسی کے سامنے کشکول پھیلانے کی ضرورت نہ ہوتی، شومئی قسمت کہ آج تک ہمیں جو حکمران ملے انہوں نے ملکی وسائل میں اضافہ کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے ان وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی کے 76سال بعد حقیقی معنوں میں آزاد نہ ہوسکے اور اپنے پائوںپر کھڑے نہ ہوسکے ۔کسی بھی ملک کی معاشی واقتصادی ترقی میں دیگر شعبوں کے علاوہ برآمدات کا شعبہ بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے برآمدات سے جہاں معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں یہ وہیں زرمبادلہ میں اضافہ کا باعث بھی بنتی ہیں۔بر آمدات کا شعبہ خصوصی توجہ کا حامل ہے حکومت کو برآمدات کے فروغ کے لئے مزید سہولتیں اور مراعات بھی دینی چاہئیں تاکہ برآمدات کنندگان کا اس طرف رجحان بڑھے۔اس مقصد کے لئے بیرونی دنیا میں پاکستانی مصنوعات کی کھپت کے لئے منڈیاں بھی تلاش کرنی چاہئیںجس سے ایک طرف ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا جبکہ معاشی واقتصادی سرگرمیاں بڑھنے کے باعث لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جو ملک کی ترقی وخوشحالی کا باعث ہوگا۔لہٰذا برآمدات کے فروغ سے لے کر ہر شعبہ کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، حکومت کو برآمدات کے فروغ اور تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لئے بھر پور کوششیں کرنا ہوں گی اور اس مقصد کے لئے دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کو متحرک کرکے ان کی یہ ڈیوٹی لگائے کہ پاکستانی مصنوعات کی کھپت کے لئے راہ ہموار کریں۔ وزارت تجارت نے کمرشل اتاشیوں کو پاکستانی مصنوعات کیلئے غیر ملکی منڈیوں کی تلاش اور پہلے سے موجود منڈیوں تک مصنوعات کی رسائی کا ٹاسک دیاہوا ہے لیکن اس عمل کی مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے کمرشل قونصلرز اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ بیرون ممالک تعینات کمرشل قونصلرز کو خصوصی ٹاسک سونپے جائیں اور انہیں واضح ہدایات دی جائیں کہ وہ پاکستانی مصنوعات کے فروغ کیلئے بھرپور انداز میں کام کریں اور ان کی پروموشن کو کارکردگی سے مشروط کیا جائے اور جو کمرشل قونصلر ایکسپورٹ کے فروغ کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے تو اسے عہدے سے فوری طور پر ہٹا دینا چاہئے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی اور خوشحالی کا تعلق اس کی درآمدات اور برآمدات میں توازن اور زرمبالہ میں اضافہ کے ساتھ ہوتا ہے، بدقسمتی سے گزشتہ کئی سال سے پاکستان کی درآمدات و برآمدات کے درمیان توازن پر سوال اٹھ رہے ہیں، ایک دور تھا جب پاکستان کی برآمدات زیادہ اور ان کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر نہایت مناسب ہوتے تھے، جس کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن بھی بہتر ہوتا تھا مگر چند برس کے دوران ملکی معیشت پر صنعتی اور تجارتی شعبے میں پڑنے والے دبائو کی وجہ سے صورتحال خاصی تشویشناک ہورہی ہے بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی شعبہ بہت زیادہ متاثر ہورہا ہے، اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں صنعتی پیداوار مہنگی ہونے کی بناء پر عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات بھارت اور بنگلہ دیش کا مقابلہ کرنی کی سکت نہ رکھتے ہوئے ان کی ڈیمانڈ متاثر ہورہی ہے جبکہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں اضافہ ادائیگیوں کے شیڈول کو متاثر کر رہا ہے اور ہمیں مسلسل آئی ایم ایف کے آگے کاسہ گدائی پیش کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے تا کہ نہ صرف پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کے سود کی ادائیگی اور اہم ضروری درآمدات کے لئے ادائیگی یقینی بنانے کے لئے لیٹر آف کریڈٹس کو ممکن بنایا جا سکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی برآمدات کو 60ارب سالانہ پر پہنچانے کا ہدف دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت تجارت اور متعلقہ ادارے آئندہ تین برس میں برآمدات کے 60ارب ڈالر کے ہدف کے لئے عملی اقدامات کریں، انہوں نے کہا کہ الحمد للہ گزشتہ مالی سال ملکی برآمدات 30 ارب ڈالر سے زیادہ رہیں حکومتی پالیسیوں کی بدولت انفارمیشن ٹیکنالوجی برآمدات 3.2ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، پاکستان کی ترقی کے لئے سب کو محنت کرنا ہے صنعتوں کے لئے بجلی کی لاگت کو کم کرنے کے لئے وزارت بجلی ایک جامع منصوبہ پیش کرے، قومی ترقی برآمدات بورڈ کے اجلاس کی صدارت کے دوران وزیر اعظم کو برآمدی صنعت کی ترقی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی جبکہ چین کو گدھے کے گوشت کی ایکسپورٹ کے لئے گوادر میں سلاٹر ہائوس کی تعمیر کے منصوبے سے بھی آگاہ کیا گیا، جس سے مقامی ایک ہزار افراد روزگار مہیا ہو گا، جہاں تک صنعتوں کے لئے بجلی کی لاگت کم کرنے کی غرض سے وزارت بجلی کو جامع منصوبہ پیش کرنے کی ہدایات کا تعلق ہے تو اوپر کی سطور میں ہم اس بات کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ جب تک بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جائے گی ہماری صنعتیں کم لاگت مصنوعات بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں، اور اس وقت اگر اپنے ہمسایہ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں ہماری برآمدات کم ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہر دو ممالک کے مقابلے میں ہماری اشیاء مہنگی ہیں جس کی وجہ سے بیرونی منڈیوں میں ان کی کھپت بہت ہی کم ہے اس حوالے سے سامنے آنے والی بعض رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش برآمدات کے حوالے سے
بھارت سے بھی سبقت لے جا چکا ہے مگر ہمارے ہاں بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے کی وجہ سے مسابقت کی دوڑ میں کہیں پیچھے ہے اس کا واحد حل ملک میں بجلی کے نرخوں میں کمی لا کر اس صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے بدقسمتی سے اس وقت ہر جانب آئی پی پیز کے چنگل سے چھٹکارا پانے کی عوامی آوازوں پر کوئی توجہ نہ دینا بھی اہم وجہ ہے، جو معلومات سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں کئی آئی پی پیز مقررہ کپیسٹی کے مطابق کہیں کم بجلی پیدا کرنے کے با وجود اربوں روپے معاہدے کے مطابق وصول کر رہے ہیں جبکہ بعض آئی پی پیزا ایک یونٹ بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود پوری قیمت ( اربوں) وصول کر کے قومی خزانے پر بوجھ اور عوام کے لئے عذاب کی صورت اختیار کر چکے ہیں، عوامی مطالبات کے باوجود وزیر توانائی اور دیگر متعلقہ حکام ’’ ان ظالمانہ‘‘ معاہدوں سے جان چھڑانے کے لئے اقدامات کرنے کے الٹا ان کی وکالت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ جب تک ان ظالمانہ آئی پی پیز معاہدوں سے جان نہیں چھڑائی جائے گی نہ بجلی سستی ہوگی نہ صنعتی پیداوار میں اضافہ اور عالمی سطح پر مسابقت میں کامیابی کا خواب پورا ہو گا یعنی بر آمدات میں اضافہ ناممکن بنا ر ہے گا اور نہ ہی عوام کو آسانیاں فراہم ہوں گی۔ اس لئے آئی پی پیز کو مزید مسلط کرنے کے حوالے سے اقدام اٹھانا وقت کی آواز ہے تا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔





