جرمنی: پاکستانی قونصل خانے پر حملے کا افسوس ناک واقعہ

پاکستان امن پسند ملک ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر دُنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ دُنیا بھر میں امن و امان کے لیے پاکستان کی کوششیں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ افغانستان میں امن و امان کے لیے وطن عزیز سالہا سال سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ 1979میں جب سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا تو پاکستان نے افغان باشندوں کے لیے اپنا دامن وسیع کر دیا۔ لاکھوں افغان یہاں آئے اور یہیں تعلیم حاصل کی، کاروبار کیے، شادیاں کیں اور یہیں ان کی تین نسلیں پروان چڑھیں۔ پاکستان اور اس کے عوام نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی مدد کی۔ ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ ان کی میزبانی کرتے کرتے وطن عزیز خود بے پناہ مصائب اور مشکلات کا شکار ہوا۔ یہاں کلاشنکوف اور منشیات کلچر افغانستان کے عوام ہی ساتھ لے کر آئے تھے، جس سے بڑی تعداد میں ہمارے نوجوان متاثر ہوئے۔ منشیات کی لت کتنی ہی زندگیوں کو نگل گئی اور کتنے ہی کلاشنکوف کلچر سے پیدا شدہ بدامنی کی بھینٹ چڑھ گئے، کوئی شمار نہیں۔ ملک میں جرائم کی وارداتوں کو بڑھاوا دینے میں افغان باشندوں کا بڑا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت پچھلے 6سال کے دوران انتہائی دگرگوں صورت حال سے دوچار ہوچکی ہے۔ وسائل کی بے پناہ کمی اور مسائل بہت زیادہ ہیں۔ وسائل پر غیر قانونی مقیم غیر ملکی بڑا بوجھ ثابت ہورہے تھے، اس لیے گزشتہ سال 43برس تک افغان باشندوں کی میزبانی کرنے کے بعد غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان سے اُن کے ممالک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اب تک لاکھوں لوگ اپنے ملکوں کو واپس جاچکے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد وہاں امن و امان کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر مشکل وقت میں اپنی بساط سے بڑھ کر افغانستان اور اُس کے عوام کی مدد کی ہے، لیکن دوسری جانب سے احسانات کا بدلا چُکانا تو دُور کی بات، اُلٹا وطن عزیز سے متعلق بدترین تعصب کی جھلک صاف دِکھائی دیتی ہے۔ اسی نفرت اور تعصب کا اظہار گزشتہ روز جرمنی میں واقع پاکستانی قونصل خانے پر حملہ کرکے کیا گیا ہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جرمن شہر فرینکفرٹ میں افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی قونصل خانے پر پتھرائو کیا گیا اور پاکستانی پرچم اتارنے کا افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا۔ پاکستانی سفارتی حکام نے فرینکفرٹ میں پیش آئے افسوس ناک واقعے پر جرمن وزارت خارجہ سے احتجاج کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق افغان شہریوں نے فرینکفرٹ میں احتجاج کے دوران پاکستانی قونصل خانے پر دھاوا بولا، پتھرائو کیا اور پاکستانی پرچم بھی اتارا، جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے، رپورٹس کے مطابق افغان باشندوں نے پاکستانی پرچم جلانے کی کوشش بھی کی۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سفارتی تنصیبات کی سیکیورٹی کی ذمے داری جرمن حکومت کی ہے، اس معاملے پر بین الاقوامی برادری میں بھی سفارتی تنصیبات کی سیکیورٹی کے معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے۔ فرینکفرٹ میں جرمن حکام کی جانب سے پاکستانی سفارتی حکام کو مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جرمن حکام نے سوشل میڈیا پر اس معاملے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا ہے، جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی قونصل خانے پر حملے کے بعد پاکستان نے جرمن حکومت کے سامنے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ پاکستان نے جرمن سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے فرینکفرٹ میں قونصل خانے پر افغان شہریوں کے حملے کی مذمت کی۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ جرمن حکام پاکستانی عملے کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کریں۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ انتہا پسند گروہ کی جانب سے فرینکفرٹ میں اپنے قونصل خانے پر حملے اور جرمن حکام کی طرف سے قونصل مشن کے احاطے کی تقدس اور سلامتی کے تحفظ میں ناکامی کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ واقعے سے قونصل خانے کے عملے کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور فرینکفرٹ میں پاکستان کے قونصل خانے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا، جرمن حکومت کو اپنے شدید احتجاج سے آگاہ کررہے ہیں۔ اپنے بیان میں جرمن حکومت پر زور دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ جرمنی ویانا کنونشنز کے تحت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے اور جرمنی میں پاکستانی سفارتی مشنز اور عملے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم جرمنی کے حکام پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ واقعے میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں، سیکیورٹی کی خامیوں کے ذمے دار افراد کو بھی جواب دہ ٹھہرائیں۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات، 1963کے تحت میزبان حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ قونصلر احاطے کے تقدس کی حفاظت کرے، اسی قانون کے تحت سفارتکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانا بھی میزبان حکومت کی ذمے داری ہے۔ علاوہ ازیں جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے نے بھی سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے شرپسندوں کی طرف سے پاکستانی سفارتخانے میں توڑ پھوڑ کی مذمت کی اور کہا کہ وہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ ایسی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو اور شرپسندوں کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔ سفارتخانے نے اپنی کمیونٹی سے صبر اور پرسکون رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے، اس کی جتنی زیادہ مذمت کی جائے، کم ہے۔ محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک تو کوئی نہیں کرتا۔ یہ کیسی بدترین مثالیں قائم کی جارہی ہیں۔ اپنی سرحدوں کو ارض پاک کے خلاف استعمال ہونے دیا جارہا ہے۔ دہشت گرد حملے ہورہے ہیں، جو پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان نے جرمنی سے بالکل درست احتجاج کیا۔ وہاں کی انتظامیہ کی ذمے داری تھی کہ اس واقعے کا تدارک کرتی۔ اس واقعے میں جو جو ملوث ہیں، اُن کی نشان دہی کی جائے اور اُنہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ آئندہ ایسی حکمت عملی وضع کی جائے کہ اس قسم کا مذموم واقعہ جنم نہ لے سکے۔
سرکاری اخراجات میں کمی کیلئے بڑا قدم
وطن عزیز اور اس کے غریب عوام پچھلے 6سال سے انتہائی کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ معیشت کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے۔ اس وقت ملک نظام مملکت چلانے کے لیے کسی طور شاہانہ اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں پیدا ہونے والا ہر نومولود لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ قوم کے افراد کا بال بال قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے کفایت شعاری معقول راستہ ہے اور اسی پر چل کر ہم آئندہ وقتوں میں بہتری کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بھی انتہائی نامساعد حالات تھے۔ اُس وقت کے رہنمائوں، افسران اور دیگر ذمے داران میں احساس تھا اور وہ کفایت شعاری کی روش پر گامزن رہتے تھے، سرکاری دستاویزات کو جوڑے رکھنے کے لیے پیپر پن کی جگہ ببول کے کانٹے استعمال میں لائے جاتے تھے، غیر ضروری اخراجات بالکل نہیں کیے جاتے تھے، ہر کوئی ملک و قوم کی پائی پائی بچانے کی فکر میں رہتا تھا، اس لیے ابتدائی مشکل صورت حال کے بعد ملک نے جلد ہی معاشی استحکام، مضبوطی اور خوش حالی کا دور دیکھا۔ پاکستانی معیشت نے تیزی سے اُبھر کر دُنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔ عوام خوش حالی سے ہمکنار ہوئے۔ اِس وقت بھی پاکستان انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت سنجیدگی سے کاوشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ اس کی جانب سے کفایت شعاری کو اختیار کرنے کے لیے بعض احسن اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ یقیناً ان کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ اب سرکاری اخراجات پر کھانوں اور بیرون ملک کے غیر ضروری دوروں پر پابندی عائد کرنے کا احسن اقدام سامنے آیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے غیر ضروری بیرون ملک دوروں اور سرکاری اخراجات پر کھانوں پر پابندی عائد کردی۔ ذرائع کے مطابق پابندی کا اطلاق پارلیمانی وفود اور اسمبلی افسران پر ہوگا، کم سے کم دورانیے اور مختصر وفود کو اجازت ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ اسپیکر نے سرکاری اخراجات پر ریفریشمنٹ پر بھی پابندی عائد کی اور ڈنر و لنچ کے ٹائم کوئی اجلاس نہ رکھنی کی ہدایت جاری کردی۔ قبل ازیں، قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں نے اسپیکر سے پہلے سے فراہم گاڑیاں پُرانی اور ناکارہ ہونے کی شکایت کی تھی، جس پر اُنہوں نے تمام گاڑیوں کی مرمت کی ہدایت جاری کی اورمرمت کے بعد یہ گاڑیاں چیئرمینوں کے حوالے کردی گئیں۔ چیئرمینز مسلسل نئی گاڑیاں فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے مگر ایاز صادق نے انکار کر دیا۔ اسپیکر کا موقف تھا کہ اتنے فنڈز نہیں کہ نئی گاڑیاں خریدی جائیں، وزیراعظم کی طرف سے بھی نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہے اور وزارتِ خزانہ نے بھی نئی گاڑیوں کے لیے فنڈز دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اقدام ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ ضروری ہے کہ شاہانہ اخراجات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ ہر کوئی کفایت شعاری کی روش اختیار کرے۔ اسی طرح مزید کفایت شعاری پر مبنی اقدامات کیے جائیں۔ حکومتی اخراجات میں زیادہ سے زیادہ کمی لائی جائے۔ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ ملکی رہنما، سیکرٹریز، افسران ہر سطح پر کفایت شعاری ناگزیر ہے۔ یقیناً اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے اور ملک پھر سے ترقی اور خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوگا۔





