بنوں میں دھرنے کے قائدین اور انتظامیہ کے مذاکرات: ’آپریشن عزم استحکام کسی صورت قبول نہیں‘امن کمیٹی کا مطالبہ

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میں امن مارچ اور دھرنے کے قائدین کا مقامی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے۔
مزاکرات کے پہلے دور میں انتظامیہ کے سامنے 10 مطالبات پیش کیے گئے ہیں جس میں مظاہرین نے بنوں میں آپریشن عزم استحکام کی پر زور مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے کے لیے بنوں میں پولیس کو مکمل با اختیار بنایا جائے۔
یاد رہے کہ جمعے کے روز بنوں میں قیام امن کے لیے کی جانے والی ’امن مارچ‘ کے دوران فائرنگ اور بھگدڑ مچنے سے کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس مارچ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد بنوں کا امن مارچ دھرنے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
دھرنے کے دوسرے روز مشران بنوں نے متفقہ طور پر امن دھرنے کو آگے بڑھانے کے لیے 45 رکنی امن کمیٹی منتخب کی ہے جس میں مقامی ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے علاوہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی شامل ہے۔
پولیس کو با اختیار، طالبان کے مراکز بند اور انٹرنیٹ کھولا جائے: امن کمیٹی کے مزید مطالبات کیا ہیں؟
امن کمیٹی کے صدر ناصر خان بنگش نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں واضح کیا ہے کہ وہ بنوں میں امن چاہتے ہیں۔
مطالبات کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق
- طالبان چاہیے وہ گڈ ہوں یا بیڈ ان کے جتنے بھی مراکز کھولے گئے ہیں وہ سب بند کیے جائیں۔
- بنوں میں تین دن سے بند انٹرنیٹ کھولا جائے
- بنوں میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوگا
- کوئی بھی شخص لاپتا نہیں ہوگا
- 15 جولائی اور 19جولائی کے واقعے کی فی الفور جوڈیشنل انکوائری کروائی جائے
- دھشت گردی کی جنگ میں زخمی پولیس اہلکاروں اور عوام کو معاوضہ اورعلاج کروایا جائے
- مدارس پر چھاپے مارنا بند کیے جائیں
ناصر خان بنگش کا کہنا تھا کہ سوموار دس بجے تک ہمیں بتایا جائے گا کہ مطالبات کا کیا بنا اور کیا ہوا ہے۔
’ہمارے ساتھ انتظامیہ نے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں اور اس کے لیے وہ پل کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اور یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ مثبت کردار ادا کریں گے۔ ‘
ناصر خان نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ بنوں میں کوئی بھی فوجی آپریشن نہیں ہوگا۔ دھشت گردی کے خلاف ہر کارروائی سی ٹی ڈی کرے گی اور پولیس ان کی معاونت کے لیے موجود ہوگی۔ اگر سی ٹی ڈی کسی بندے کو لے کر جائے گی تو وہ اس کا ہر صورت میں اندراج مقامی چوکی اور تھانے میں ہوگا۔
دوسری جانب صوبائی وزیر یار خان نے بی بی سی سے بات کر کرتے ہوئے کہا کہ کہ مزاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی نے واضح طور پر آپریشن عزم استحکام کے خلاف صوبائی اسمبلی سے قرار داد منظور کروائی ہے۔
ان کے مطابق سوموار کا دن بہت اہم ہے۔ مشران نے مطالبے پیش کردیے ہیں۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ مطالبات کمشنر کے زریعے سے پیش کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم حکومت ہیں مگر کچھ چیزیں ہم پر مسلط کی جارہی ہیں جن کو ہم قبول ہیں کریں گے۔ سوموار کو جو کچھ بھی ہوگا وہ سب کچھ مشران اور عوام کے سامنے ہوگا۔
اد رہے کہ امن کمیٹی کا سربراہ چمبر آف کامرس بنوں کے صدر ناصر خان بنگش کو منتخب کیا گیا ہے۔
مزاکرات میں حکومت کی جانب کمشنر بنوں ڈویثرن، ڈی آئی جی بنوں ڈویثرن اور ڈسڑکٹ پولیس افسیر بنوں ڈویثرن شامل ہیں۔
دوسری جانب انتظامی افسران نے مذاکرات کے حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت اور مظاہرین کے درمیاں پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔انھوں نے دعویئ کیا کہ مذاکرات مثبت سمت چل رہے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا پی ٹی آئی پر ’فائرنگ اور بگھدڑ مچانے‘ کا الزام
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنوں میں تاجروں کے ایک امن مارچ میں چند سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل ہوئے جن میں پی ٹی آئی کے لوگ مسلح جتھوں کی شکل میں شامل تھے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تحریکِ انصاف کے ان مسلح افراد نے اس موقع پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بگھدڑ مچی اور انتشار پھیلایا جس سے ایک شخص ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’تشدد کی سیاست پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی لاشوں کی سیاست کرنا اور ملک کی معیشیت تباہ کرنا چاہتی ہے۔‘
بی بی سی وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ وفاقی وزیر نے بنوں واقعے کی تحقیقات کے لیے کسی قسم کا کمیشن بنانے کے متعلق بھی بات نہیں کی۔
بنوں احتجاج کا مقصد کیا تھا
بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شہر کی تاجر برادری کی درخواست پر جمعے کے روز امن مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں اس وقت ہزاروں افراد شریک تھے۔
خیبرپختونخوا میں گزشتہ چند ماہ میں یوں تو شدت پسندی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ سامنے آیا ہے تاہم حالیہ دنوں میں بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث اس احتجاج کا اعلان کیا گیا۔
چند روز قبل بنوں کینٹ پر اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے میں مرکز صحت پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اس امن مارچ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اس مارچ میں حکومت سے شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق اس امن مارچ میں بنوں اور گرد و نواح سے لوگ قافلوں کی صورت میں شامل ہوئے۔
بدامنی اور دہشت گردی کی اس لہر کی وجہ سے عمائدین کی جانب سے 19 جولائی کو امن مارچ کی کال دی گئی جس میں تمام سیاسی رہنما، سماجی شخصیات اور تاجر برادری کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔







