Editorial

دہشت گردی واقعات میں اضافہ تشویشناک

سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا، پاکستان اس جنگ میں اُس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ پڑوسی ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے عفریت نے وطن عزیز میں بھی پنجے گاڑنے شروع کیے۔ ملک کے گوشے گوشے میں دہشت گردی کی مذموم کارروائیاں رونما ہونے لگیں، جن میں درجنوں بے گناہ لوگ اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے تھے، دہشت گردی سے عبادت گاہیں تک محفوظ نہ تھیں۔ مساجد اور گرجائوں پر بھی دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ تفریح گاہیں بھی ان کے نشانے پر تھیں۔ سیکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھا۔ دہشت گرد ملک میں خوف و دہشت پھیلانے میں مصروف رہے۔ عوام میں شدید عدم تحفظ پایا جاتا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے خوف کھاتے تھے۔ صبح کو گھر سے جانے والے کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکے گا یا نہیں۔ دہشت گردی کے مذموم واقعات میں ہمارے کئی اہم سیاست دان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر جگہ بدامنی دِکھائی دیتی تھی۔ اس کا انتہائی منفی اثر ملکی معیشت پر بھی پڑا، جس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی ہے۔ سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ یہاں سے سمیٹ کر بیرون ممالک کی راہ لی۔ سیاحوں نے پاکستان کا رُخ کرنا چھوڑ دیا۔ کھیل کے میدان ویران ہوگئے۔ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد کوئی بین الاقوامی کھلاڑی اور ٹیم پاکستان کا رُخ کرنے کو تیار نہ تھی۔ دہشت گردی کے ہیولے نے 80ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کو اُن کی زندگیوں سے محروم کیا۔ ان میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران اور اہلکار بھی شامل تھے۔ ان دہشت گردوں نے 2014میں اسکول میں پڑھنے والے معصوم بچوں تک کو اپنی مذموم کارروائی کا نشانہ بنایا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور حملے میں 150معصوم طلباء اور اساتذہ شہید ہوئے۔ اس کے بعد دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے پہلے آپریشن ضرب عضب کیا گیا اور پھر ردُالفساد کے ذریعے ملک بھر میں دہشت گردوں کی مکمل کمر توڑ کر رکھ دی گئی۔ ان کو ان کی کمین گاہوں میں گھس کر جہنم واصل اور گرفتار کیا گیا۔ متعدد ہلاک اور پکڑے گئے، جو بچے اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی اپنی بقا سمجھی۔ ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا۔ امن و امان کی فضا بحال کردی گئی۔ اس کا سہرا بلاشبہ پاک افواج کے سر بندھتا ہے۔ پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی پر قابو پاکر دُنیا کو حیران ہونے پر مجبور کر دیا۔ دہشت گردی کے خلاف دُنیا بھر میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی گئی۔ کچھ سال امن و سکون سے گزرے۔ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے وطن عزیز میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھاتا دِکھائی دیتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور اہم تنصیبات ان کے نشانے پر ہیں۔ بعض اوقات معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کبھی سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی چیک پوسٹس پر حملہ کردیتے ہیں، کبھی اہم فوجی تنصیب ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ یہ کئی جوان اور افسران کو شہید کرچکے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز کے تحت مختلف آپریشنز جاری ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں، سال بھر کے دوران ہزار کے قریب دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاچکا ہے، متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، کئی علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ ہفتوں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، جلد اس کے متعلق حتمی فیصلہ ہوجائے گا۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ملک میں پچھلے کچھ دنوں سے دہشت گردی کی وارداتوں میں شدّت محسوس کی جارہی ہے۔ مسلسل واقعات رونما ہورہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی دہشت گردی کے واقعات میں 2اہلکاروں سمیت 6افراد شہید جب کہ 14زخمی ہوگئے۔ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 2اہلکاروں سمیت 8افراد شہید جب کہ 14زخمی ہوگئے۔ جنوبی وزیرستان میں دھماکے میں 4افراد جاں بحق ہوگئے۔ دھماکا صدر مقام وانا میںکڑی کوٹ روڈ پر سٹی اسپتال کے قریب ہوا۔ اسپتال ذرائع کی جانب سے بھی 4افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ دھماکا خیز مواد موٹرسائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور اس میں طالبان کمانڈر عین اللہ کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، تاہم وہ محفوظ رہے۔ ادھر مردان میں پولیس چوکی پر فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید اور 2زخمی ہوگئے۔ پولیس کی مطابق تحصیل تخت بھائی آثار قدیمہ میں پولیس چوکی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، شرپسندوں کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار عمر نبی شہید ہوگیا جب کہ 2اہلکار محمد فیاض اور شبیر شدید زخمی ہوگئے۔ دوسری طرف بلوچستان کے علاقے بلیدہ میں سائوتھ بلیدہ اسکائوٹس کے کانوائے پر گلیسر پوسٹ کے قریب ہونے والے آئی ای ڈی بم دھماکے میں ایک اہلکار نائیک شیر خان شہید جب کہ سپاہی جنید، آصف رشید، وحید عثمان غنی، عاصم، نادر اور رحیم زخمی ہوگئے۔ علاوہ ازیں پشین میں زلزلہ ہوٹل کے قریب اس وقت موٹر سائیکل میںریموٹ کنٹرول بم زوردار دھما کے سے پھٹ پڑا جب قریب سے سی ٹی ڈی کی گاڑی گزر رہی تھی، دھما کے کے نتیجے میں3اہلکاروں سمیت 6افراد زخمی ہوگئے۔ دہشت گردی کا عفریت پھر زور پکڑ رہا ہے۔ پچھلے کچھ دن سے اہم انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ روز کالعدم ٹی ٹی پی کے پاکستان میں سربراہ کی خفیہ کال منظرعام پر آئی ہے، جس کے ذریعے بڑی تباہی سے متعلق منصوبہ بندی سامنے آئی ہے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی امین الحق بھی پنجاب سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس تمام تر تناظر میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں مزید سختی لانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کو چُن چُن کر مارا اور گرفتار کیا جائے اور ملک کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جائے۔ ان کے بھاگنے کے تمام راستے مسدود کیے جائیں۔ سرحدوں سے حملوں کے سلسلوں کی مکمل روک تھام یقینی بنائی جائے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ جلد ہی آپریشن عزم استحکام کا آغاز ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک سے دہشت گردی کا ناسور مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔
ملکی کرنٹ اکائونٹ
خسارے میں بڑی کمی
پاکستان سالہا سال سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے کا شکار رہا ہے۔ ملک کی خراب معاشی صورت حال کے لیے یہ امر کسی طور مناسب نہ تھا۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے محض بیانات سے کام چلایا جاتا رہا، عملی بنیادوں پر اقدامات کا فقدان رہا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کی خاطر سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی۔ محض قرض در قرض لے کر نظام حکومت چلاکر رُخصت ہونے کی روش پر عمل ہوتا رہا۔ ظاہر ہے اس طرح مسئلے کا حل نکلنے کے بجائے مزید اس میں اضافے دیکھنے میں آئے اور گزشتہ چند سال میں تو صورت حال ہولناک حد تک خراب ہوگئی تھی۔ پہلے نگراں حکومت اور پھر گزشتہ مہینوں عام انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت نے ذمے داری کا مظاہرہ کیا، جس سے معیشت کی صورت حال بہتر ہونا شروع ہوئی۔ برآمدات بڑھائی گئیں، درآمدات میں کمی کی گئی۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لانے کے لیے اقدامات تاحال جاری ہیں۔ ملک میں عظیم سرمایہ کاریاں آرہی ہیں۔ مختلف شعبوں میں انقلابی اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں، ان تمام کاوشوں کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ اصلاحی کوششیں ہی ہیں کہ جن کے طفیل پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بڑی اور واضح کمی ہوئی ہے۔بینک دولت پاکستان کے مطابق مالی سال 2023-24 میں پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 68 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 3 ارب 27 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں 79 فیصد کم ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد ہے، جو گزشتہ 13 سال میں سب سے کم ہے، یہ نمایاں کمی تجارتی خسارے میں 6 فیصد کمی اور ترسیلات زر میں 11 فیصد اضافے کی وجہ سے ہوئی۔ مالی سال 24 میں ملک کی اشیاء اور خدمات کی مجموعی برآمدات کا حجم 38.9 ارب ڈالر رہا۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران درآمدات 63.3 ارب ڈالر رہیں۔ بیرون ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 11 فیصد اضافے کے ساتھ 30.25 ارب ڈالر رہا، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر جون 2024 میں پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ میں 32 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا عارضی خسارہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ مئی 2024 میں نظرثانی شدہ خسارہ 24 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے مزید کوششیں کی جائیں۔ ماہرین کی آرا کی روشنی میں اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا مکمل خاتمہ ممکن بنایا جائے۔ یہ اہداف مشکل ضرور ہیں، لیکن ناممکن نہیں اور سنجیدگی سے کی گئی کوششوں کے ثمرات یقینی طور پر ظاہر ہوں گے۔ ملک و قوم کو ترقی و خوش حالی سے ہمکنار کرنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بڑے فیصلے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

جواب دیں

Back to top button