سرمایہ دار طبقے کے 49لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت

وطن عزیز پچھلے 6سال سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے کچھ ہی ماہ ہوئے ہیں۔ وہ معیشت کی بحالی اور عوام کی خوش حالی کے لیے تندہی سے اقدامات میں مصروفِ عمل ہے۔ کچھ دوست ممالک کو وطن عزیز میں بڑی سرمایہ کاریوں پر رضامند کرنا اس کا بڑا قدم ہے۔ اس کے ثمرات آئندہ وقتوں میں ظاہر ہوں گے۔ موجودہ حکومت ٹیکس آمدن میں خاطرخواہ اضافے اور ملک اور قوم کی مشکلات کے مکمل خاتمے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ وہ وطن عزیز کو قرضوں کے بار سے مستقل نجات دلانا چاہتی اور عوام کو حقیقی ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ حکومتی آمدن کے ذرائع کو بڑھانے پر سنجیدگی سے توجہ دے رہی ہے اور اس حوالے سے راست کوششیں بھی یقینی بنارہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کردار یقیناً لائقِ تحسین ہے، جو عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور اُن کے مصائب اور مشکلات میں کمی لانے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں ٹیکس چوری کی رِیت خاصی پُرانی ہے۔ بڑے بڑے مگرمچھ ٹیکس کی رقوم بچانے کے لیے ہر منفی حربہ آزماتے اور قومی خزانے کو ہر برس بیش بہا نقصانات سے دوچار کرتے ہیں۔ اگر ٹیکس کا نظام خامیوں سے پاک ہو اور ہر ذمے دار شہری باقاعدگی سے ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنائے۔ ہر فرد اپنی ذمے داری اس ضمن میں ادا کرے تو صورت حال کچھ ہی عرصے میں ملک و قوم کے موافق ہوسکتی ہے، لیکن اس حوالے سے کوششوں کا فقدان دِکھائی دیتا ہے اور بہت سے عناصر ٹیکس سے بچنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہ امر ملک و قوم کے لیے ازحد نقصان کا موجب قرار پاتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایف بی آر حکام کو ملک کے دولت مند اور سرمایہ دار طبقے کے 49 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت کی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے ایف بی آر کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ملک کے دولت مند اور سرمایہ دار طبقے کے 49 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور غریب طبقے پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ وزیراعظم آفس سی جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے 4 گھنٹے طویل، اہم جائزہ اجلاس ہوا اور اس دوران ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز میں اصلاحات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے گزشتہ آٹھ ہفتوں کی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا عمل بین الاقوامی شہرت کے حامل کنسلٹنٹ میک کینزی کی زیر نگرانی کیا جارہا ہے اور ایف بی آر ڈیجیٹائزیشن کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 4مہینوں میں ٹیکس ریفنڈ میں 800 ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا، لیکن ٹیکس ریفنڈ کا نظام مزید بہتر بنائیں گے، ایف بی آر میں اصلاحات سے محصولات میں اضافہ ممکن ہے، اصلاحات کے حوالے سے ایف بی آر کے کئی منصوبوں میں غیر ضروری تاخیر انتہائی افسوس ناک ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے بریفنگ میں کہا گیا کہ مختلف عدالتوں اور ٹریبونلز میں ٹیکس کے حوالے سے 3.2 کھرب روپے کے 83 ہزار 579 مقدمات زیر التوا ہیں، موجودہ حکومت کے اب تک کے دور میں ٹیکس مقدمات کے حل کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ بریفنگ میں مزید کہا گیا کہ پچھلے 4 مہینوں کے دوران مختلف عدالتوں کی جانب سے قریباً 44 ارب روپے کے 63 مقدمات نمٹادیے گئے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس دینے کی استطاعت رکھنے والے 49 لاکھ افراد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے ایف بی آر حکام کو ہدایت کی کہ ان 49 لاکھ افراد میں دولت مند اور سرمایہ دار کو ترجیحی بنیادوں پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور غریب طبقے پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ یکم اپریل 2024 سے اب تک ایف بی آر تاجر دوست موبائل فون ایپلی کیشن کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ ریٹیلرز رجسٹر ہوچکے جبکہ وزیراعظم نے کہا کہ اس نظام کو مزید فعال بنانے کے لیے ریٹیلرز کے ساتھ مشاورت جاری رکھی جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ٹیکس مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے اپیلٹ ٹریبونلز کی تعداد 100 تک بڑھانے اور کسٹمز کے مقدمات کے حوالے سے بھی اپیلٹ ٹریبونلز کی تعداد بڑھانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ٹیکس اپیلٹ ٹریبونلز کی کارکردگی جانچنے کے حوالے سے ڈیش بورڈ تیار کیا جائے۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی میں کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، سیلز ٹیکس کے حوالے سے ماضی میں کیے گئے غیر قانونی ریفنڈز کی واپسی کے لیے فوری حکمت عملی بنائی جائے اور ایف بی آر کے فراڈ ڈیٹیکشن اینڈ انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کو مکمل ڈیجیٹائز کیا جائے۔وزیراعظم شہباز شریف کے یہ احکامات ہر لحاظ سے قابل قدر اور لائق تحسین ہیں۔ ان 49لاکھ افراد کے ٹیکس نیٹ میں آنے اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں ملک و قوم کے تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔ مصائب اور مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ حکومتی آمدن میں بے پناہ اضافہ ہوگا، جس کے ثمرات عوام النّاس تک منتقل کرنے میں حکومت کو چنداں مشکل نہیں ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان 49لاکھ افراد کو ہر صورت ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور اس حوالے سے سنجیدگی سے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ ٹیکس چوری کے تمام تر راستے مسدود کیے جائیں۔ ٹیکس چوروں کے خلاف سخت کارروائیاں یقینی بنائی جائیں۔ ٹیکس جن پر واجب ہے، اُن سے ہر صورت ٹیکس وصولی کی رِیت ڈالی جائے۔ ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کی کلید یہی ہے کہ وہاں ہر ذمے داری شہری باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ملک عزیز میں بھی یہ رِیت ڈالی جانی چاہیے۔ اس کے ملک و قوم پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
دھواں چھوڑنے والے اینٹوں کے بھٹے بغیر نوٹس گرانے کا عدالتی حکم
ملک میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بہتری کی کوئی سبیل دِکھائی نہیں دیتی۔ ہمارے ہاں ماحول دشمنی میں تمام حدیں عبور کرلی گئی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں موسمیاتی تغیرات وسیع پیمانے پر جنم لیتے نظر آتے ہیں۔ موسم ہولناک حد تک شدّت اختیار کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سخت سردی کے ساتھ شدید ترین گرمی کے موسموں سے لوگوں کو واسطہ پڑرہا ہے۔ ایک طرف سردی کڑاکے نکالتی ہے تو دوسری جانب گرمی بے حال کرڈالتی ہے۔ گرما اور سرما کے باعث اموات بھی کافی زیادہ تعداد میں ہوتی ہیں۔ فصلوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نت نئے امراض جنم لیتے ہیں، جن میں بچے زیادہ تعداد میں متاثر ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک موسمی تغیرات کی ہولناکیوں سے تحفظ کے لیے سر جوڑے بیٹھے رہے اور اب تک اقدامات یقینی بنارہے ہیں جب کہ وطن عزیز میں ماضی میں اس حوالے سے صرف بیان بازیوں تک محدود رہا گیا، جس کا خمیازہ آج قوم کو انتہائی سنگین شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں سرما میں ہر سال اسموگ کی سی صورت حال رہتی ہے، شہریوں کی بڑی تعداد اس کی لپیٹ میں آکر مختلف مشکلات میں گھری رہتی ہے۔ اسموگ کے تدارک کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے بڑا حکم دیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے صوبے میں اسموگ کے تدارک سے متعلق کیس میں اسموگ کا باعث بننے والے اور کالا دھواں چھوڑنے والے اینٹوں کے بھٹے بغیر نوٹس فوری گرانے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے شہری ہارون فاروق سمیت دیگر کی جانب سے اسموگ کے تدارک کے حوالے سے دائر درخواستوں پر ہونے والی گزشتہ سماعت کا سات صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ عدالت نے اسموگ کا باعث بننے والے اینٹوں کے بھٹے فوری گرانے اور پرانی ٹیکنالوجی پر بھٹوں کو چلا کر کالا دھواں چھوڑنے والے بھٹوں کو بغیر نوٹس دیے فوری گرانے کا حکم دے دیا۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں پر عدالتی حکم کی سخت خلاف ورزی کی جارہی ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی کا ذمے دار محکمہ ماحولیات ہے، لہٰذا ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ آوری اور ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانے کی آخری وارننگ دی جا رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر اینٹوں کے بھٹوں پر عدالتی احکامات کی حکم عدولی ہوئی تو پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز ذمے دار ہوں گے۔ اسموگ کے تدارک کے لیے عدالتی حکم ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ انتظامیہ کو اس حکم پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ماحول دوست اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ جتنے زیادہ درخت اور پودے لگائے جائیں گے، اُتنا ہی فائدہ ہوگا۔ اس لیے ہر شہری ذمے داری کا ثبوت دے اور اپنے حصے کا ایک پودا ضرور لگائے اور اس کی آبیاری کی ذمے داری باقاعدگی سے نبھائے۔





