Editorial

فلور ملز کی ہڑتال موخر، صائب فیصلہ

آٹا بنیادی ضرورت ہے۔ ملکی تاریخ کھنگالی جائے تو بارہا اس کے مصنوعی بحران کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں، مصنوعی بحران پیدا کرکے ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز خوب دولت کماتے دِکھائی دیے، مصنوعی بحران کے حربے کے ذریعے وہ آٹے سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرتے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے عوام پچھلے 6سال سے بدترین مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں۔ 2018ء کے وسط کے بعد اشیاء کے دام روزانہ کی بنیاد پر ہولناک حد تک بڑھائے جاتے رہے، عوام کی چیخیں نکالنے کی باتیں کی جاتی رہیں، پاکستانی روپے کو تاریخ کی بدترین بے وقعتی سے دوچار کیا گیا، معیشت کا پہیہ جام کرنے کے لیے مذموم ہتھکنڈے اختیار کیے گئے، جس سطح کی مہنگائی 2035یا 2040میں آنی تھی، وہ 2021تک قوم کا مقدر بن چکی تھی۔ غریبوں کی آمدن تو وہی تھی، لیکن اخراجات بے پناہ بڑھ چکے تھے۔ اتنی ہولناک گرانی کے جھکڑ چلے کہ متوسط کہلانے والا طبقہ بھی غربت کی نچلی سطح پر آپہنچا۔ فروری 2024میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، جس کے نتیجے میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کی بحالی کے مشن پر جُت گئی۔ اس حوالے سے وزیراعظم شبانہ روز محنتوں میں مصروف ہیں۔ زرعی شعبے میں انقلاب کے لیے اصلاحات کی جارہی ہیں، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے، اسی طرح آئی ٹی کے شعبے میں بھی ترقی کی معراج پر پہنچنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لیے بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وسائل کے درست استعمال پر توجہ دی جارہی ہے۔ کفایت شعاری کو اختیار کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم معیشت کے استحکام اور مضبوطی کے لیے کئی ممالک کے دورے کرکے اُنہیں پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں معاہدات بھی طے پائے ہیں۔ بعض ملکوں کے ساتھ باہمی تعاون اور مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ نئی اتحادی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں بہت سے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے راست کوششیں یقینی بنائی گئی تھیں۔ فلور ملز پر ود ہولڈنگ ٹیکس بھی اسی سلسلے میں عائد کیا گیا تھا، جس پر پچھلے تین روز سے فلور ملز کی ہڑتال جاری رہی، جس سے آٹے کی بلیک مارکیٹنگ میں ہولناک اضافے دِکھائی دئیے۔ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اس ہڑتال کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور آگے مزید عوام کی جیبوں پر نقب لگاتے، لیکن اس سے قبل حکومت کی جانب سے صائب قدم اُٹھایا گیا، حکومتی کمیٹی کی جانب سے فلور ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ گفت و شنید کی گئی اور اُنہیں ہڑتال 10روز تک مؤخر کرنے پر رضامند کرلیا گیا۔ یوں تین روز سے جاری ہڑتال دس روز کے لیے ملتوی ہوگئی اور اب آٹے کے حوالے سے صورت حال بہتر ہونے کا امکان ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن اور حکومت کے درمیان تین روز مسلسل ہڑتال کے بعد ڈیڈلاک ختم، فلور ملز ایسوسی ایشن نے ہڑتال 10روز کیلئے موخر کردی۔ حکومتی کمیٹی میں شامل چیئرمین ایف بی آر، چار وفاقی وزرا نے فلور ملز کے نمائندوں سے ملاقات کی، فلور ملز ایسوسی ایشن نے ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ پر تحفظات سے آگاہ کیا۔ نجی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے فلور ملز کی ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے پر اتفاق کیا، جس کے بعد پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن ہڑتال موخر کرنے کیلئے حکومت کی بات مان لی۔ دوسری جانب ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے جمعرات کو پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کو بلالیا ہے، جس میں حکومتی کمیٹی سے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے سے متعلق اتفاق رائے سے اجلاس ہوگا۔ اس متعلق چیئرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن عاصم رضا کا کہنا تھا کہ ہڑتال ختم نہیں کررہے، دس روز کے لیے موخر کی جارہی ہے، حکومتی کمیٹی نے تین روز بعد ہماری بات سے اتفاق کیا، آئندہ اجلاس میں ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے پر فیصلہ ہوگا۔پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کا ہڑتال دس روز کے لیے مؤخر کرنا اور معاملات گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی جانب جانا، یقیناً صائب فیصلہ ہے، جس کی جتنی توصیف کی جائے، کم ہے۔ اس حوالے سے حکومت کے کردار کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ اس معاملے میں حکومت نے انتہائی ذمے داری کا ثبوت دیا ہے۔ دیکھا جائے تو ہڑتال کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، بلکہ اس سے مسائل اور مزید بڑھ جاتے اور غریب عوام اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر فلور ملز کی ہڑتال اسی طرح جاری رہتی تو آٹے کی بلیک مارکیٹنگ ہولناک حد تک بڑھ جانے کا اندیشہ تھا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بدترین نشتر برداشت کررہے ہیں۔ اُن کے مسائل اور بڑھتے۔ کون نہیں جانتا کہ ملک اس وقت انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے، حکومت نے اُن شعبوں کو بھی موجودہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی ہے، جو پہلے اس سے آزاد تھے، ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے یہ قدم اُٹھانا ناگزیر تھا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ تلخ اور مشکل فیصلوں سے ہی پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ دانش مندی اور تدبر پر مبنی ایسے فیصلے کیے جائیں کہ دس روز سے قبل ہی یہ ہڑتال مکمل طور ختم ہوجائے۔
بھارت: مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا
بھارت کے انتہاپسند ہندو اپنے ملک کو دُنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت قرار دیتے نہیں تھکتے، شائننگ انڈیا کے نعرے بھی بڑے طمطراق سے لگائے جاتے ہیں، لیکن دراصل بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم کی سی حیثیت رکھتا ہے، جہاں ہندو انتہاپسند اکثریت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی زندگیوں کے درپے اور ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے تمام حدیں پار کرجاتی ہے۔ اس حوالے سے ظلم و ستم، جبر، درندگی، سفّاکیت کی ایسی مذموم تاریخ رقم ہے، جو بھارت کی حقیقت دُنیا کے سامنے عیاں کردیتی ہے۔ پچھلے دس سال سے وہاں مودی جیسا انتہاپسند حکمراں مسلط ہے، جس کے دور میں انتہاپسندی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ بدترین تعصب روا رکھا جاتا ہے۔ وہ اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ مسلمان، سِکھ، عیسائی، پارسی اقلیتوں کے ساتھ مسلسل ناروا سلوک بھارت کا اصل چہرہ ہے۔ مسلمان خاص طور پر بھارتی انتہاپسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ انتہاپسندوں کا جتھا جب چاہتا ہے، کسی مسلمان پر جھوٹا الزام لگاکر اُس سے حقِ زیست چھین لیتا ہے۔ انتہاپسند درندے کسی مسلم لڑکی کی عصمت دری کرنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ ہیں نہ عزتیں۔ اُن کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اسکولوں تک میں معصوم مسلمان بچوں کو بدترین تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ملازمتوں کے حوالے سے بھی صورت حال یکسر مختلف نہیں۔ مسلمان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مودی کے پھر سے وزیراعظم بننے کے بعد انتہاپسندی کے واقعات ہولناک حد تک بڑھ گئے ہیں اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ اُن سے حق زیست چھین لینے کی دھمکیوں کے سلسلے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے کارندوں کی مسلمانوں کو کھلے عام قتل کرنے کی دھمکیاں زور پکڑنے لگیں، مودی تیسری بار بھارت میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوا ہے۔ اُس کے پھر سے اقتدار سنبھالنے کے بعد انتہاپسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حال ہی میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کو قربانی کرنے اور جانور ذبح کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، رواں سال عیدِ قرباں پر بھارتی ریاست اُترپردیش نے گائے کی قربانی پر پابندی عائد کردی، جس کے باعث مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بی جے پی اور ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے حامیوں نے گائے کے گوشت کے خلاف زہر آلود مہم کا آغاز کیا، حال ہی میں بی جے پی رہنما نے نئی دہلی کے علاقے کالکا جی میں ایک بچھڑے کی لاش ملنے کے بعد اشتعال انگیز بیان دیا، بی جے پی رہنما کرنیل سنگھ نے اپنے بیان میں مسلمانوں پر گائے کے بچھڑے کو مارنے اور لاش پھینکنے کا الزام لگادیا، بی جی پی رہنما نے 48گھنٹوں کے اندر اندر دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، مقامی مسلم رہنمائوں نے بی جے پی رہنما کے خلاف شکایت درج کرائی مگر اب تک اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، بی جے پی رہنما کے اشتعال انگیز اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی بیان سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، جس کے باعث درجنوں مسلم خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، ہندو توا کے حامی مسلسل علاقے کا دورہ کررہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل کر ’’انہیں پاکستان بھیج دو’’، ’’کٹوے’’ اور ’’دہشت گرد’’ کے نعرے لگارہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے بھارت میں زندگی گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ وہ انتہائی نامساعد اور مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر بھارت میں انتہاپسندی کے سلسلے یوں ہی جاری رہے تو اس ملک کے حصّے بخرے ہونے کا اندیشہ ہے۔ پہلے ہی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر وہاں علیحدگی کی ڈھیروں تحاریک تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔ اگر انتہاپسندی کے یہی سلسلے رہے تو بھارت ٹوٹ کر کئی ملکوں میں بٹ جائے گا۔ اس لیے انتہاپسند اکثریت کے زعم سے باہر آکر اپنے ملک کے لیے سنجیدگی سے سوچیں اور اقلیتوں کو اُن کے حقوق ناصرف فراہم کیے جائیں بلکہ اُنہیں ہر طرح سے جان، مال اور عزت کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔

جواب دیں

Back to top button