مخصوص نشستوں کا معاملہ: ’الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے‘ جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔
منگل کے روز سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی بینچ نے کی۔
فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد جیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے اور فیصلہ کب سُنایا جائے گا ابھی اس بارے میں کُچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
واضح رہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے اب تک سات سماعتیں ہو چکی ہیں۔
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے وکیل اور اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی اپنے دلائل مکمل کیے۔
تاہم سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب میں دلائل دیے۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہی نہیں۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب میں کہا کہ ’آرٹیکل 218 کے تحت دیکھنا ہے کیا الیکشن کمیشن نے اپنی زمہ داری شفاف طریقہ سے ادا کی یا نہیں۔ ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی۔ موقف اپنا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن تین مخصوص نشستیں ملیں۔ الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا۔ الیکشن کمیشن اپنے ہی دستاویزات کی نفی کر رہا ہے، کیا یہ بے ایمانی نہیں؟‘
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جب جواب الجواب دلائل مکمل کیے تو جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ ’بلے کے نشان کا فیصلہ آنے سے پہلے حامد رضا پی ٹی آئی کے نامزد تھے۔ الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی جس وجہ سے تنازع پیدا ہوا۔
اس کے بعد آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے اپنا ریکارڈ دبانے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو جو ریکارڈ جمع کرایا وہ مشکوک ہے۔‘
جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کہ سپریم کورٹ سے ریکارڈ چھپایا گیا۔‘
بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آپ پی ٹی آئی کے ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں لوگوں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا درست تھا؟‘ جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ’جب الیکشن کمیشن نے ہمیں آزاد ڈیکلئیر کر دیا تو سنی اتحاد کونسل میں جانا درست تھا۔ تاہم اس سے پہلے جو ہوا وہ الیکشن کمیشن کی غلطی تھی۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ ’سوچ کر جواب دیں کیا پی ٹی آئی کو یہ نشستیں واپس نہیں چاہییں؟ جس پر اُن کا جواب تھا کہ ’اگر عدالت آئینی تشریح سے ایسے نتیجے پر پہنچے تو مجھے انکار نہیں۔‘
بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
منگل کے روز مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
کیس کا پس منظر
6 مئی کوسپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
تاہم اس سے قبل 3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گیا تھا۔ یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔







