Editorial

آپریشن عزم استحکام، وقت کی اہم ضرورت

سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں پاکستان اُس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا، اس حیثیت میں وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا، امریکا جب افغانستان پر حملہ آور ہوا تو اُس کے بعد دہشت گردی کے سلسلوں کا پاکستان میں آغاز ہوا اور یہ 15برس تک کسی خوف ناک آسیب کی طرح ملک و قوم پر مسلط رہی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں کوئی دہشت گردی کا بڑا حملہ نہ ہوتا ہو۔ ایسے واقعات میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں بے گناہ شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے تھے۔ ملک کا کوئی حصّہ دہشت گردی کے واقعات سے محفوظ نہ تھا۔ عبادت گاہیں تک دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ مساجد، گرجا گھروں میں پے درپے بم دھماکے اور خودکُش حملے کیے جاتے رہے۔ بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے سلسلے رہے۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھروں سے نکلنے والے لوگوں کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو زندہ سلامت گھر پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ سیکیورٹی فورسز پر بھی حملوں کے سلسلے تھے۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے سایوں سے بھی ڈرے سہمے رہتے تھے۔ دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور رونما ہوا، جس میں سفّاک دہشت گردوں نے 150معصوم طلباء اور اساتذہ کو اپنی مذموم کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کردیا۔ اس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کُن آپریشنز کا آغاز کیا گیا۔ پہلے آپریشن ضرب عضب اور پھر ردُالفساد سے ان کی مٹی پلید کی گئی۔ ان کو ان کی کمین گاہوں میں گھس کر جہنم واصل کیا گیا۔ بڑی تعداد میں شرپسندوں کو گرفتار کیا گیا۔ دہشت گردوں میں جو بچے اُنہوں نے پاکستان سے فرار میں اپنی عافیت سمجھی۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ اس کا سہرا بلاشبہ پاک افواج کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے ملک میں امن و امان کی فضا کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرکے دُنیا کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کر دیا۔ کچھ سال ملک میں امن و امان کی فضا برقرار رہی، لیکن جب سے امریکا کا افغانستان سے انخلا ہوا اور وہاں عبوری حکومت قائم ہوئی، اُس کے بعد سے پاکستان میں سیکیورٹی فورسز پر پے درپے حملوں کے سلسلے جاری ہیں۔ کبھی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی سیکیورٹی فورسز کے قافلوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ کبھی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان مذموم کارروائیوں میں کئی جوان اور افسران جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ملک کے اندر بھی بعض حلقے دشمن کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے پاک افواج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کے لیے وہ سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا پہلے بھی لیتے رہے اور اب بھی اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس تناظر میں ظاہر و پوشیدہ دشمنوں اور دہشت گردوں کا مکمل قلع قمع کرنا وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور ملک و قوم کو خوش حالی اور ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، پاک فوج کی کور کمانڈر کانفرنس میں آپریشن عزم استحکام کو اہم قرار دیا گیا ہے،پاک فوج کی کور کمانڈرز کانفرنس نے انسدادِ دہشت گردی کیلئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں آپریشن عزمِ استحکام کو اہم قدم قرار دے دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے زیر صدارت 265ویں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی، جس میں فورم نے امن و استحکام کیلئے شہدا، افواجِ پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فورم نے پاکستانی شہریوں کی لازوال قربانیوں کو بھی زبردست خراجِ عقیدت کیا، فورم نے ملکی سلامتی کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے آپریشن ’’عزمِ استحکام’’ کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ فورم نے انسدادِ دہشت گردی کیلئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں عزمِ استحکام کو اہم قدم قرار دیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملک میں پائیدار استحکام اور معاشی خوشحالی کے لیے عزمِ استحکام بہت ضروری ہے، دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کیلئے عزم استحکام وقت کا اہم تقاضا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چند حلقوں کی جانب سے عزمِ استحکام کے حوالے سے بلاجواز تنقید کی جارہی ہے، مخصوص مفادات کے حصول کے لیے قیاس آرائیوں پر فورم نے اظہارِ تشویش کیا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کور کمانڈر کانفرنس میں فورم نے علاقائی سلامتی بالخصوص افغانستان کی صورتحال پر غور کیا اور علاقائی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس کے شرکا نے کشمیر اور فلسطین کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اور فورم نے کشمیر اور غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور نسل کشی کی مذمت کی۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت قوم کو درپیش چیلنجز کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس کے شرکا نے اظہار خیال کیا کہ عوام کے تعاون سے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک پائیدار حل کیلئے کوشاں ہیں۔ کانفرنس میں سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے جاری ڈیجیٹل دہشت گردی ریاستی اداروں کے خلاف سازش قرار دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس کے شرکا کا کہنا تھا کہ ریاست مخالف بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں ڈیجیٹل دہشت گردی جاری ہے، ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقصد جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے سے قوم میں نفاق اور مایوسی پھیلانا ہے۔ شرکا کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان اور پاکستانی قوم ان سازشوں سے ناصرف آگاہ ہیں بلکہ انہیں شکست دینی کیلئے پُرعزم اور متحد ہیں۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں بالکل درست فرمایا گیا۔ دہشت گردی اور اس مذموم نیٹ ورک کے مکمل خاتمے اور ملکی استحکام کے لیے آپریشن عزم استحکام ازحد ضروری ہے۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا دہشت گردوں کے عفریت کو قابو کر چکا اور اس بار بھی ان شاء اللہ آپریشن عزم استحکام کی بدولت ایسا کرنے میں سرخرو ہوگا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے پہلے ہی مختلف آپریشنز جاری ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ ہزار کے قریب دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے، کئی گرفتار کیے جاچکے ہیں، متعدد علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جا چکا ہے۔ قوم سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی مذموم سازشوں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور وہ پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اُسے پاک افواج پر فخر ہے، ان کے ہر جوان اور افسر پر فخر ہے، جو ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ پاکستان سے جلد دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی۔ عظیم سرمایہ کاریاں آنے سے معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ مختلف شعبوں میں اصلاحات سے صورت حال مزید بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ امن و امان کے قیام کے ساتھ معاشی استحکام کا ہدف جلد حاصل کرلیا جائے گا۔
گرانی کی شرح میں بڑا اضافہ
پاکستان کے غریب عوام پچھلے 6سال سے بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُن پر تاریخ کی بدترین گرانی مسلط کی گئی۔ اُن کی آمدن وہی رہی، بلکہ اُس میں کہیں نہ کہیں کچھ کمی ضرور واقع ہوئی، لیکن غریبوں کے اخراجات دن بہ دن بڑھتے رہے۔ گزشتہ سال نگراں حکومت کے دور میں ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیاء کی اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا جو اب بھی جاری ہے، اس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوئے، ناصرف ڈالر کے نرخوں میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ پٹرولیم مصنوعات، گندم اور دیگر کی قیمتوں میں بھی کچھ نہ کچھ کمی ضرور آئی۔ ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، زیادہ نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہورہی ہے، اس کے اثرات تین چار ماہ قبل گندم، چاول، دالوں اور دیگر کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی صورت بھی ظاہر ہوئے، لیکن پچھلے ایک ماہ سے پھر سے گرانی کا جن سر اُٹھاتا دِکھائی دیتا ہے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں پھر سے بڑے اضافے کے سلسلے ہیں۔ گزرے ہفتے میں مہنگائی میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 1.28فیصد کا اضافہ ہوگیا، ادارہ شماریات کی جانب سے ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کر دئیے گئے، ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 23.59فیصد تک پہنچ گئی، ایک ہفتے میں ریکارڈ 29اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ایک ہفتے میں 5اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 17اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہیں، ایک ہفتے میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں 84روپے کا اضافہ ہوگیا، ایک ہفتے میں آٹے کا 20کلو تھیلا 188روپے 44پیسے مہنگا ہوا، دل چنا 9روپے فی کلو تک مہنگی اور دال مونگ بھی 9روپے کلو مہنگی ہوگئی ہے جب کہ زندہ مرغی فی کلو 7روپے اور لہسن فی کلو 8روپے تک مہنگا ہوا۔ چینی، دہی، دال ماش، ٹوٹا باسمتی چاول، پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔ گرانی میں اس قدر اضافہ غریب عوام کے لیے سوہانِ روح سے کم نہیں۔ وہ پہلے ہی مہنگائی کے بدترین نشتر برداشت کررہے ہیں، وہ مزید گرانی کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ حکومت کو عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے مہنگائی میں کمی کی خاطر راست کوششیں کرنی چاہئیں۔ غریبوں نے پچھلے چھ سال میں بہت مشکل دور کا سامنا کیا ہے۔ اب وہ مزید اس کے متحمل ہرگز نہیں ہو سکتے۔ اُن کی اشک شوئی کے لیے راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ مہنگائی کے جن کو ہر صورت بوتل میں بند کرکے غریبوں پر سے بوجھ میں کمی لائی جائے۔

جواب دیں

Back to top button