شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے وزیراعظم کا صائب خطاب

خطے میں امن کے بغیر ترقی اور خوش حالی کا خواب ہرگز پورا نہیں ہوسکتا۔ ایشیا کے بعض ممالک پچھلے کئی عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ اس خطے میں بسنے والے عوام کو ترقی اور خوش حالی کے مکمل ثمرات بہم پہنچانے کے لیے دہشت گردی اور دیگر مسائل کو جڑ سے ختم کرنا ناگزیر ہے۔ 2001سے لے کر 2020تک ان میں خاصی شدّت دیکھنے میں آئی۔ پاکستان بھی پندرہ سال تک بدترین دہشت گردی کی زد میں رہا، جسے سانحۂ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کُن آپریشنز کے ذریعے قابو کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد سے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ کچھ سال امن و امان کی صورت حال برقرار رہی، اب پھر سے پاکستان میں پچھلے دو ڈھائی سال سے دہشت گردی کا چیلنج سر اُٹھاتا دِکھائی دیتا ہے۔ پاکستان پر سرحد پار سے بھی حملوں کے سلسلے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مقاصد کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے بارہا افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبات کرتا چلا آرہا ہے، لیکن پڑوسی ملک کی جانب سے اس ضمن میں ایک بار بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے وطن عزیز پر حملے کیے جارہے ہیں۔ پاکستان افغان حکومت سے ہر سطح پر اس حوالے سے احتجاج ریکارڈ کراچکا ہے، لیکن مجال ہے کہ جو اُس کی جانب سے ایک بار بھی کوئی کاوش کی گئی ہو۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اپنے خطاب امر سے متعلق کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہے، ہمارے چیلنجز مشترکہ ہیں، غربت کے خاتمے اور ترقی و خوشحالی کیلئے مل کر کام کرنا ہے، افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی تشویش ناک ہے، افغانستان دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کرے، کابل حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے، افغانستان میں پائیدار امن ہمارا مشترکہ ہدف ہے، افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بامعنی طور پر بات چیت کرنا ہوگی تاکہ وہاں کے عوام کے مسائل حل ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی کونسل کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اجلاس میں شرکت میرے لیے اعزاز کی بات ہے، انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کررہی ہے، ہمارے چیلنجز مشترکہ ہیں، ہمیں مل کر ترقی و خوشحالی کیلئے کام کرنا ہے، ایس سی او ترقیاتی منصوبوں کیلئے متبادل فنڈنگ کا طریقہ کار وضع کرے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عالمی سیاست و معیشت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان پر مشتمل خطہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا بھر میں طاقت کے مراکز تبدیل ہورہے ہیں۔ امریکا اور یورپ کے ساتھ اب ایشیا بھی عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں اہمیت اور کردار کا حامل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں بیلاروس کی شمولیت خوش آئند ہے۔ اس کے نتیجے میں ارکان کے درمیان اشتراکِ عمل کی راہیں مزید ہموار ہوں گی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ خطے کے روشن مستقبل کیلئے جغرافیائی، سیاسی محاذ آرائی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا، ہم سب کے چیلنج مشترکہ ہیں۔ سب کو امن کے لیے مل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے تجارت کی اہم گزرگاہ ہے، سی پیک کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کی جانب گامزن ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ افغانستان دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کرے تاکہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کی جائے، افغانستان میں پائیدار امن ہمارا مشترکہ ہدف ہے، افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بامعنی طور پر بات چیت کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی چاہے وہ ریاستی ہو یا کسی تنظیم یا فرد کی طرف سے ہو، اس کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ بے گناہ افراد کی جانیں لینے کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ڈھال بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا اور لسانیت کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے موجود ہیں، ہمیں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے، غزہ میں انسانیت سوز مظالم جاری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں مدلل گفتگو فرمائی ہے۔ افغانستان کو اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اپنی سرزمین کو دہشت گردی مقاصد کے لیے ہرگز استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ پاکستان افغانستان میں مکمل امن کا خواہاں ہے۔ وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے سے ناصرف افغانستان بلکہ خطے میں بھی صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے سے خطے اور اس کے عوام کی ترقی اور خوش حالی وابستہ ہے۔ اسلاموفوبیا کے حوالے سے وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ دُنیا کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہر کسی کو اسلحہ اُٹھانے کے بجائے مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی روش اختیار کرنی چاہیے۔
مودی کا بھارت کو ہندو انتہا پسند ریاست میں بدلنے کا مذموم منصوبہ
ماضی میں تو پھر بھی بھارت میں اقلیتوں کی صورت حال بہتر تھی، لیکن مودی کو
برسراقتدار آئے 10سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، وہ دو مدتیں گزار چکا اور تیسری مدت اقتدار کا ابھی آغاز ہوا ہے، اس کے دور میں بھارت مکمل ہندو ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اقلیتوں کا حال بہت بُرا ہے۔ اُن پر ظلم و جبر کے سلسلے ہیں۔ اس کے دور اقتدار میں خصوصاً مسلمان اقلیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔ کئی مساجد اور مزاروں کو شہید کیا گیا، بعض پر مندر کی تعمیر کی گئی۔ مودی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے اقدامات میں مصروف رہا۔ اُس نے انتہاپسندی کو عروج دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتیں مسلمان، عیسائی، سِکھ، پارسی وغیرہ انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہیں۔ اُنہیں ہندو انتہاپسندوں کے بدترین تعصب اور ناروا سلوک کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ معصوم مسلمان بچوں کو بھی اسکولوں میں علم سِکھانے والے اساتذہ تک تعصب کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی واقعات عالمی میڈیا کے ذریعے دُنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ ملازمتوں کے حوالے سے بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں جب ہندو انتہا پسندوں پر مشتمل ہجوم کا جی چاہتا ہے، کسی پر بھی جھوٹا الزام لگاکر جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی عصمت دری کے بے شمار واقعات بھارت میں رونما ہوتے ہیں۔ مسلمانوں ہی نہیں سِکھ، عیسائی اور پارسی اقلیتیں بھی انتہاپسند ہندوئوں کے عتاب کا شکار رہتی ہیں۔ انتہاپسندی کو مزید مضبوطی عطا کرنے کے لیے مودی اور اس کے ساتھیوں نے منصوبہ بندی کرلی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی انتہاپسندوں کی یلغار نے ہر جائز اور ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے مودی کے بھارتی حکومت پر قبضے کو سازگار بنایا۔ حال ہی میں بی جے پی کی جانب سے بھارتی پارلیمان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کی منصوبہ سازی کی گئی۔ بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ لودھ نے لوک سبھا میں بھارت سے ہندو راشٹریہ کے لیے 50کٹر ہندو ذہنیت کے ایم پیز منتخب کرنے سے متعلق کہا کہ 50کٹر ہندو ایم پیز کو منتخب کرنا ضروری ہے، جو پارلیمان میں بلاخوف و خطر ہندو راشٹریہ کا مطالبہ کریں، ہمیں ایسے کٹر ہندو ذہنیت کے ایم پیز کی ضرورت ہے، بھارت کو ہندو توا ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ بی جے پی لیڈر نے مطالبہ کیا کہ مذہب کی تبدیلی کا الزام لگانے والی اقلیتوں کے لیے سرکاری اسکیموں کو فوری ختم کیا جائے، یہ ملک ہندوئوں کا دیس ہے اور ہمیشہ ہندوئوں کا ہی رہے گا، ہمیں سیکولر ازم کا بھاشن نہ دیا جائے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، ظلم و ستم اور جبر کے سلسلے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں درجنوں علیحدگی کی تحاریک تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں۔ سِکھوں کی جانب سے خالصتان کی حمایت میں کامیاب ریفرنڈمز بھی کرائے گئے ہیں۔ اگر انتہاپسندی کا غلبہ رہا تو دُنیا کی کوئی طاقت بھارت کے حصے بخرے ہونے سے نہیں روک سکے گی۔ اسی لیے بہتر یہی ہی کہ ہندوانتہاپسندوں کے سُرخیل مودی ہوش کے ناخن لیں اور اقلیتوں کو اُن کے حقوق کی فراہمی کے لیے اقدامات یقینی بنائیں۔ بھارت کو مکمل ہندو انتہاپسند ریاست بنانے سے ناصرف اُن کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوسکتا، بلکہ بھارت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہی۔





