بجلی کا بڑھتا شارٹ فال، تدارک ضروری

پاکستان پچھلے دو ڈھائی عشرے سے توانائی کے بدترین بحران کا شکار رہا ہے۔ جب اس بحران نے نیا نیا سر اُٹھانا شروع کیا تھا تو اُس وقت ارباب اختیار نے اس کے حل کی جانب توجہ نہ دی، اس لیے جوں جوں وقت گزرتا گیا، یہ بحران شدّت اختیار کرتا گیا۔ ماضی کو کھنگالا جائے تو گرمیاں پورے ملک کے عوام کے لیے کسی کڑی آزمائش سے کم ثابت نہ ہوتی تھیں۔ گرمیوں میں بجلی اکثر وقت غائب ہی رہتی تھی۔ ایک طرف سورج آگ برسا رہا ہوتا تھا تو دوسری جانب بجلی کی آنکھ مچولی لوگوں کے دماغ چکرا رہی ہوتی تھی۔ اس وجہ سے بجلی سے وابستہ لوگوں کے کاروبار کا بھی بڑا حرج ہوتا تھا۔ غریبوں کے لیے دال دلیے کے لالے پڑجاتے تھے۔ بجلی بندش سے صنعت و حرفت کے شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے تھے۔ پھر آخرکار عوام النّاس کی اشک شوئی کا سامان ہوا اور ن لیگ کے 2013سے 2018پر مشتمل اقتدار کے دورانیے کے وسط میں بجلی لوڈشیڈنگ پر مکمل قابو پالیا گیا۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس کے لیے بجلی کی طلب اور کھپت کو متوازی سطح پر لایا گیا تھا اور یہ اُس وقت کی حکومت کا یقیناً بڑا کارنامہ تھا۔ اسی کی بدولت لوڈشیڈنگ سے نجات ممکن ہوئی تھی۔ بعد میں آنے والے حکمراں بجلی کی طلب اور کھپت کو متوازی رکھنے میں ناکام رہے اور آج اس حوالے سے صورت حال سنگین حد تک خراب ہوچکی ہے۔ جہاں گرمی کی شدّت ہولناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ سورج سوا نیزے پر آگیا ہے۔ درجہ حرارت بے پناہ بڑھ چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ہیٹ ویو کے سلسلے ہیں۔ وہیں بہت سے علاقوں سے بزرگوں کے گرمی برداشت نہ کر پانے کے باعث زندگی سے محروم ہونے کی اطلاعات تسلسل سے آرہی ہیں۔ کیونکہ بجلی طلب سے خاصی کم پیدا ہورہی ہے، لہٰذا لوڈشیڈنگ بھی انتہائی زائد دورانیے پر ہورہی ہے اور ملک کے بعض حصّوں میں تو 14، 14گھنٹے بجلی کے بغیر لوگ آگ برساتی گرمی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس ہولناک گرمی میں اُن کی حالتِ زار کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ وہی اپنا دُکھ جانتے ہیں کہ کیسے کٹھن حالات میں زیست گزار رہے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں جب تک بجلی کی طلب اور کھپت متوازی نہیں ہوجاتیں، لوڈشیڈنگ کے سلسلے جاری رہیں گے۔ نجی ٹی وی نے بجلی کا شارٹ فال کافی بڑھ جانے سے متعلق اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق ملک میں بجلی کا شارٹ فال 6ہزار 70میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک میں بجلی کی طلب 26ہزار میگاواٹ جب کہ بجلی کی پیداوار 19ہزار 929میگاواٹ ہے۔ پن بجلی ذرائع سے 6ہزار 900میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ سرکاری تھرمل پاور پلانٹس 700میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں اور نجی شعبے کے بجلی گھروں کی پیداوار 7ہزار 988میگاواٹ ہے۔ ذرائع کے مطابق ونڈ پاور پلانٹس سے 1000میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ سولر پاور پلانٹس سے، 199بگاس سے 142اور نیو کلیئر پاور پلانٹس سے 3ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ ملک بھر میں 8گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے جب کہ لائن لاسز والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12سے 14گھنٹے ہے۔ بجلی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک طلب اور کھپت متوازی سطح پر نہیں آجاتے۔ اس کے ساتھ ایک اور سنگین مسئلہ ملک کے طول و عرض میں بسنے والے عوام کو درپیش ہے اور وہ ہے بجلی کا بے پناہ مہنگا ہونا۔ لوگوں کی آمدن کا بڑا حصّہ ماہانہ بجلی بلوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ بعض صورتوں میں تو غریبوں کو اپنی جمع پونجی بیچ کر بجلی بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بجلی کے ہولناک بلوں پر وقتاً فوقتاً ملک کی اہم شخصیات بھی اپنی برہمی کا اظہار کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ غریبوں کی زبانوں پر تو مستقل بجلی کے ہوش رُبا بلوں اور اپنی بے بسی کی گردان رہتی ہے۔ حالانکہ خطے کے دیگر ممالک میں بجلی بے پناہ سستی ہے۔ چین، بھارت، بنگلادیش، مالدیپ وغیرہ کے لوگوں کو تو اس سہولت کے بدلے اپنی آمدن کا انتہائی معمولی حصّہ خرچ کرنا پڑتا ہے جب کہ وطن عزیز میں عوام النّاس کو اس سہولت کے بدلے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے اور بے پناہ مصائب سے گزرنا پڑتا ہے اور اس پر طرّہ بجلی بھی اُنہیں بلاتعطل دستیاب نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں ضرورت ہے کہ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع (ہوا، پانی، سورج) کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاتے ہوئے بجلی کی طلب اور کھپت مساوی سطح پر یقینی بنائی جائے اور اس کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع ( فرنس آئل وغیرہ) سے بتدریج مکمل نجات کے بندوبست کیے جائیں۔ حتیٰ کہ اس سے مکمل جان چھڑالی جائے۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ بجلی کے ترسیلی نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ بجلی کے کھمبوں اور اُن پر تاروں کا گنجلک نظام خطرناک ہے کہ بارش برستے ہی بعض اوقات انسانی زندگیوں کے درپے آجاتا ہے۔ اس لیے زیرِ زمین بجلی کے ترسیلی نظام کو بچھانے کے لیے فی الفور اقدامات کیے جائیں۔ موجودہ اتحادی حکومت ملک و قوم کو لاحق بے پناہ مسائل کے مستقل حل کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔ معیشت کی بحالی اور بیرونی سرمایہ کاری وطن عزیز لانے کے لیے اُن کی کاوشوں کو قوم قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یقیناً حکومت بجلی کی طلب اور کھپت کو متوازی سطح پر لانے کے لیے حکومت کوشاں ہی اور ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں قوم کو ایک مرتبہ پھر بجلی لوڈ شیڈنگ سے مکمل نجات کی خوش خبری سننے کو ملے گی، لیکن اس کے ساتھ سستے ترین ذرائع سے ہی صرف ملکی ضروریات کے مطابق بجلی کی پیداوار یقینی بنائی جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنائے جائیں اور پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ سستی بجلی کا خواب اگر پایہ تکمیل کو پہنچا دیا گیا تو یہ قوم کے لیے عظیم خدمت شمار ہوگی۔
ڈاکٹروں کا عالمی دن اور اسکے تقاضے
اسلام میں ایک انسانی زندگی بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ طب مقدس پیشہ ہے اور اس شعبے سے وابستہ لوگ انسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے پوری دُنیا میں 24؍7کوشاں رہتے ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مسیحا کہلانے کے مستحق ہیں، جو لوگوں کو نئی زندگی دینے کے لیے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ انسانوں کی صحت کی بہتری کے لیے کوشاں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہر لحاظ سے سراہنے کے ساتھ قابل تحسین ہیں۔ پچھلے برسوں پوری دُنیا کو خطرناک وبا کرونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس موقع پر دُنیا بھر میں ڈاکٹروں نے اس عالمی وبا سے بچانے کے لیے عظیم خدمات انجام دیں، کافی تعداد میں پورے عالم میں مسیحا خود بیماری میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے، پاکستان سے بھی شعبہ طب سے وابستہ کئی لوگ اس دوران اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت میں مگن تھے اور انہیں بھی کرونا وائرس نے جالیا اور ان کی زندگی کے درپے ہوگیا، یہ معالجین جان دے کر امر ہوگئے۔ پوری دُنیا کے لوگ ان عظیم خدمات پر انہیں قدر و منزلت اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی ان قربانیوں کو رہتی دُنیا تک فراموش نہیں کرسکیں گے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈاکٹروں کا عالمی دن آج (یکم جولائی کو) منایا جارہا ہے، اس عالمی یوم کو منانے کا مقصد زندگی میں معالجین کی اہمیت اور ان کی ذمے داریوں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اس موقع پر پاکستان میں مختلف میڈیکل اداروں اور ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جن میں ڈاکٹروں کے پیشہ اور مریضوں کے علاج معالجے کیلئے ان کے کردار بارے آگاہی فراہم کی جائے گی۔ پاکستان کو خوش قسمتی سے مسیحائوں کی صورت رول ماڈلز میسر ہیں، جو انتھک خدمات میں مصروف ہیں، ان میں ڈاکٹر ادیب رضوی سرفہرست ہیں، جن کی خدمات کا سارا زمانہ معترف ہے اور وہ اور ان جیسے کئی مسیحا اس عمر میں بھی انسانیت کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھتے۔ عالمی یوم تقاضا کرتا ہے کہ مسیحا یوں ہی خدمات کا سفر جاری رکھیں اور اپنی ذمے داریاں مزید احسن انداز میں نبھانے کی کوشش کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وطن عزیز کے طول و عرض میں معالجین بے پناہ مسائل سے دوچار ہیں، اس حوالے سے آئے روز ان کی جانب سے احتجاج کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ وطن عزیز کے طول و عرض میں بسنے والے ڈاکٹروں کو لاحق تمام تر مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کیے جائیں جب کہ دوسری جانب ہم ان سطور کے ذریعے ڈاکٹروں سے گزارش کریں گے کہ وہ انسانی صحت کے لیے اپنی بہترین خدمات کا سلسلہ انتھک جاری رکھیں۔ انسانی کی خدمت کے لیے اُن کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ وہ ہر لحاظ سے قابل قدر اور خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔





