Editorial

آپریشن عزم استحکام ضرور کامیاب ہوگا

پچھلے دو تین سال سے دہشت گردی سنگین چیلنج کی شکل اختیار کر گئی ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ متواتر سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے سلسلے ہیں۔ سرحد پار سے بھی دہشت گرد حملے ہورہے ہیں۔ افغان سرزمین کو اس مذموم مقصد کے لیے بارہا استعمال میں لایا جارہا ہے۔ اس تناظر میں دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ’’آپریشن عزم استحکام’’ کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا جہاں بہت سے حلقوں نے خیرمقدم کیا اور اس کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا، وہیں ملک کے اندر موجود بعض عناصر اس کی مخالفت میں تمام تر حدیں عبور کرتے نظر آئے۔ دیکھا جائے تو آپریشن عزم استحکام اس وقت ناگزیر ہے کہ پاکستان میں بیرونِ ممالک سے عظیم سرمایہ کاریاں آرہی ہیں۔ سرمایہ کار دوست ماحول کی فراہمی کے لیے امن و امان کی بہتر صورت حال لازمی درکار ہے۔ معیشت کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ انتہائی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاریاں آنے سے یہ تیزی سے بہتر ڈگر پر چل پڑے گی اور معیشت کی بحالی کا سفر بے پناہ آسان ہوجائے گا۔ اس لیے عسکری و سیاسی قیادت امن کے لیے کوشاں ہیں اور اسی خاطر آپریشن عزم استحکام کا بڑا فیصلہ لیا گیا ہے۔ سرحد پار سے دراندازی اور دہشت گرد حملے کسی طور معقول مشق نہیں قرار دی جاسکتی، یہ انتہائی بھونڈا اور گھٹیا طرز عمل ہے، جس کا راستہ ہر صورت روکا جانا چاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دہشت گرد حملوں کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین کا استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کے بارہا مطالبات اور احتجاج کے باوجود افغانستان میں قائم عبوری حکومت اس کے تدارک میں ناصرف ناکام ہے بلکہ اُس کا رویہ بھی انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ ایسے میں پاکستان اپنے دفاع اور امن کی خاطر دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے کارروائیوں کا پورا پورا استحقاق رکھتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان نے گزشتہ روز عندیہ بھی دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے تحت سرحد پار موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں ہوا، تاہم ملک میں ایسا سیاسی ماحول موجود ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے آگے حکومتی فیصلوں کو اسپیس نہیں دینا چاہتیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ آپریشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے جو بھی تحفظات ہیں، انہیں دُور کیا جائے گا اور حکومت اس معاملے کو اسمبلی میں بھی لے کر آئے گی، تاکہ اراکین کے سوالات اور تحفظات کا جواب دے کر انہیں اعتماد میں لیا جاسکے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے۔ خواجہ آصف نے کالعدم ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی گرائونڈ موجود ہی نہیں، جس کی بنیاد پر بات چیت کی جائے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور کے طالبان سے مذاکرات کے مطالبے پر وزیر دفاع نی سوال کیا کہ پی ٹی آئی حکومت نے مذاکرات کے بعد جن چار سے پانچ ہزار طالبان کو واپس لاکر بسایا ہے، کیا اُن سے کوئی توقعات پوری ہوئی ہیں؟ اگر وہ تجربہ کامیاب رہا تو ہمیں بتایا جائے تاکہ ہم اُن کی تقلید کریں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے آپریشن کامیاب ہوئے اور کسی قسم کی کوئی ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اُس وقت بھی اور آج بھی افواج پاکستان سب سے بڑی اسٹیک ہولڈرز ہیں، آپریشن کے بعد سویلین حکومتوں کو جس طرح سے کردار ادا کرنا چاہیے تھا، اُس میں تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہم آپریشن عزم استحکام کو کامیاب بنانے کے لیے چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی جائے اور اس کے خدوخال سے اُن کو آگاہ کریں، کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے، وہ چاہیں تو اسمبلی میں یا پھر آل پارٹیز کانفرنس میں اس حوالے سے بات کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اب تک کسی بھی اسٹیج پر آپریشن عزم استحکام کی مخالفت نہیں کی۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے ہی آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس میں ٹی ٹی پی کی سرحد پار پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ ملکی سالمیت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں، کیونکہ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا گیا اور یہ بالکل درست اور صائب فیصلہ ہے۔ سرحد پار دہشت گردوں کی اُن پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے کارروائیاں ہونی چاہئیں، جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی اور دراندازی ہورہی ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی چنداں خلاف ورزی نہیں ہوگی، کیونکہ پاکستان نے بارہا اس حوالے سے افغانستان کی عبوری حکومت کی توجہ مبذول کرائی، لیکن وہاں سے روایتی غیر سنجیدگی ہی دیکھنے میں آئی۔ آپریشن عزم استحکام ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ دہشت گردی کا ملک عزیز سے مکمل خاتمہ ہوگا۔ امن و امان کی فضا بحال ہوگی۔ پاکستان پہلے بھی آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ چکا ہے اور اب بھی اس کے لیے یہ چنداں مشکل نہ ہوگا۔ پاکستان کی معیشت کی بہتری اور بحالی کے لیے درست خطوط پر قدم اُٹھادیے گئے ہیں۔ مشکلات کے دن تھوڑے ہیں۔ جلد قوم کو بڑی خوش خبریاں سننے کو ملیں گی۔ پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں کی صورت ایسا انقلاب آئے گا جو ملکی ترقی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
پتنگ بازی کی روک تھام کیلئے احسن فیصلہ
پتنگ بازی خونی کھیل ہے، اس کی دھاتی ڈور نے ماضی میں ملک کے طول و
عرض میں بڑے پیمانے پر کئی گھرانوں کے چشم و چراغ گل کیے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ مکمل طور پر تھم نہیں سکا ہے۔ ماضی میں ملک بھر کے مختلف حصّوں میں بسنت کا تہوار منایا جاتا تھا، تہوار کوئی بھی بُرا نہیں ہوتا، بس اُسے اس طور منایا جائے کہ یہ خوشی کا باعث بنے، کسی گھر میں صفِ ماتم بچھنے کا سبب نہ بن سکے۔ اس دوران انتہائی بے دردی کے ساتھ خونی ڈور کا استعمال کیا جاتا تھا۔ روزانہ 30، 40شہریوں کے خونی ڈور پھرنے سے اموات کی خبریں میڈیا پر آتی تھیں۔ اس کے بعد پتنگ بازی پر سخت پابندی عائد کردی گئی، لیکن اس کے باوجود آج بھی لوگ پتنگ اُڑانے کے خونی کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور پتنگ کی خونی ڈور اب بھی لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتی اور اُن کے پیاروں کو زندگی بھر کے دُکھوں اور پچھتاوئوں سے دوچار کردیتی ہے۔ گو اب یہ واقعات خاصی کم تعداد میں رونما ہوتے ہیں، لیکن جب بھی پتنگ کی ڈور پھرنے کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو ہر دردمند دل اُداس اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اس پر عائد مکمل پابندی پر عمل درآمد کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سزائیں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت سنجیدگی سے کوشاں ہے اور پتنگ بازی کے تدارک کے لیے اس نے پتنگ بازی کی ممانعت کے آرڈیننس 2001 میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے حکومت نے پتنگ بازی کی ممانعت کے آرڈیننس 2001میں ترامیم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ محکمہ قانون پنجاب نے قائمہ کمیٹی برائے قانون کی مشاورت سے مسودہ وزیراعلیٰ آفس کو بھجوادیا۔ ذرائع کے مطابق ترمیمی آرڈیننس میں پتنگ سازوں کے لیے 6ماہ سے 3سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا ہے، آرڈیننس میں بچوں کے لیے جرمانہ ہوگا جب کہ بچوں کے والدین کو بھی سزائیں دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر قانون صہیب احمد بھرت کا کہنا ہے کہ آرڈیننس میں ترامیم کا مقصد سزا کے حقیقی مستحقین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ اقدام لائق تحسین ہے۔ اس حوالے سے فوری معاملات کو آگے بڑھانے اور حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ پتنگ بازی کے دوران خونی ڈور کے استعمال سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس لیے ہم ان سطور کے ذریعے لوگوں سے عرض کرنا چاہیں گے کہ پتنگ بازی ایسے خونی کھیل سے تائب ہوجائیں اور مثبت کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصّہ لیں، جن سے تعمیری پہلو نکلتا ہو۔ پتنگ بازی سے لوگوں کی زندگی خطرے سے دوچار رہتی ہے، ایسے کھیل کا فائدہ، جو دوسروں کے لیے زندگی بھر کا روگ بن جائے۔ لہٰذا تعمیری سرگرمیوں کو اپنائیں اور ایسے کھیلوں میں حصّہ لیں، جن سے آپ کی ذہنی و جسمانی صحت مزید بہتر ہوسکے۔

جواب دیں

Back to top button