Editorial

امریکی کانگریس کی پاکستانی انتخابات سے متعلق غیر تعمیری اور بے مقصد قرارداد

رواں سال فروری میں پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر دُنیا بھر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں پر مشتمل ٹیمیں پاکستان آئی تھیں۔ انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کے لیے اہم بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں نے بھی سرزمین پاک کا رُخ کیا تھا۔ عام انتخابات کا شفاف انعقاد یقینی بنایا گیا اور اس پر ان سب نے مہر تصدیق ثبت بھی کی تھی۔ یہ لوگ انتخابی عمل کو مجموعی طور پر صاف و شفاف قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ یہ امر ریکارڈ پر موجود ہی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ایسے میں کچھ جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ وزارت عظمیٰ کا منصب ایک بار پھر میاں شہباز شریف کے حصّے میں آیا۔ پاکستان میں اتحادی حکومت کی تشکیل ہوئی اور اس نے ملک اور قوم کو لاحق مصائب اور مشکلات کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا اور تندہی سے اپنے عظیم مشن پر گامزن ہے۔ پاکستان میں موجود بعض عناصر ایسے بھی ہیں جو ملک میں بیرونی مداخلت کے خواہاں ہیں اور اس حوالے سے درپردہ ان کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ امریکا خود کو دُنیا کا سب سے بڑا ٹھیکے دار سمجھتا ہے اور دوسروں کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اَڑانا اُس کا پُرانا وتیرہ ہے۔ ایسے عناصر اُس کو درپردہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں شامل کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ روز امریکی کانگریس میں پاکستان کے عام انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا گیا اور اس حوالے سے قرارداد بھی اکثریت سے منظور کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی کانگریس نے پاکستان کے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ امریکا کے ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعووں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا ہے۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایوان میں 7کے مقابلے میں 368امیدواروں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جس میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے دعووں کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں پاکستان کے لوگوں کو ملک کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی کوشش کو دبانے کی مذمت کی گئی، ان اقدامات میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلاجواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیوں یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔ ہائوس ریزولوشن 901میں کہا گیا کہ یہ قرارداد جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے حمایت کے اظہار کے لیے ہے۔ قرارداد میں پاکستانی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ جمہوری اور انتخابی اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی برقرار رکھے، اس میں کہا گیا کہ حکومت قانونی طریقہ فراہم کرنے کی بنیادی یقین دہانی، صحافت کی آزادی، جلسہ کرنے کی آزادی اور پاکستان کے عوام کی آزادی اظہار رائے کا احترام کرے۔ قرارداد میں پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے کی ہر کوشش کی مذمت کی گئی۔ دوسری طرف دفتر خارجہ پاکستان نے امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کو غیر تعمیری اور بے مقصد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرارداد کی منظوری کا وقت اور حالات دوطرفہ تعلقات اور مثبت محرکات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد سے جاری بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے امریکی ایوان نمائندگان میں منظور قرارداد کو نوٹ کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکی نمائندگان کی قرارداد پاکستان میں سیاسی صورت حال اور انتخابی عمل سے نامکمل واقفیت کا نتیجہ ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی پارلیمانی جمہوریت اور پانچواں بڑا جمہوری ملک ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان آئین اور انسانی حقوق کو اہمیت دینے کا عزم کیے ہوئے ہے، پاکستان اپنے قومی مفاد میں قانون کی حکمرانی پر عمل کرتا ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان باہمی احترام اور مفاہمت کی بنیاد پر تعمیری مذاکرات اور رابطوں پر یقین رکھتا ہے، ایسی قراردادیں نہ تعمیری ہیں اور نہ ہی بامقصد ہیں۔ ترجمان کے مطابق امید ہے امریکی کانگریس پاک امریکا تعلقات مضبوط بنانے میں معاون کردار ادا کرے گی، پُرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں باہمی اشتراک کے شعبوں پر توجہ دی جائے گی۔ دیکھا جائے تو امریکی کانگریس میں پاکستان کے عام انتخابات سے متعلق منظور کردہ قرارداد حقائق سے کوسوں دُور معلوم ہوتی ہے۔ اس پر بعض عناصر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے، شادیانے بجارہے ہیں، لیکن اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکی کانگریس کی یہ ایک نان بائنڈنگ قرارداد ہے، جس پر عمل کرنا حکومت کے لیے ضروری نہیں ہوتا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس پر دلائل کے ساتھ صائب ردّعمل دیا ہے۔ واقعی یہ قرارداد غیر تعمیری اور بے مقصد ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے دُنیا بھر سے آنے والے صحافیوں اور عالمی اداروں کی اُن رپورٹس کی نفی کی گئی ہے، جنہوں نے پاکستان میں عام انتخابات کے عمل کو صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ قرار دیا تھا۔ حقائق کی ٹھیک طور پر جانچ پڑتال کی جاتی تو زیادہ مناسب رہتا۔
منشیات کا خاتمہ، راست اقدامات ناگزیر
گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران ملک عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جو بلاشبہ تشویش ناک امر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سوا کروڑ سے زائد پاکستانی نشے کی لت میں مبتلا ہیں جب کہ ان میں 40لاکھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وطن عزیز میں منشیات کی آزادانہ خرید و فروخت اور اس کی اسمگلنگ بتائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان کے قریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں مختلف فٹ پاتھوں پر بڑی تعداد میں لوگ نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کوئی نشے کی صورت میں زہر انجکشن کے ذریعے اپنی رگوں میں داخل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کوئی پائوڈر یا دوسری اشیاء کو سونگھ کر نشے کی جھینپ مٹا رہا ہوتا ہے۔ غرض یہ لوگ مختلف طریقوں سے اپنی موت کا سامان آپ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو وہ افراد ہیں جو نشے کی تمام حدود پھلانگ چکے اور اس کے بغیر ان کا گزارا بھی نہیں ہوسکتا اور اس بدولت یہ گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر ہی زیست بسر کر رہے ہیں جب کہ اس سے بھی کئی گنا بڑی تعداد میں ایسے افراد کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں جو عام یا کہنا چاہیے نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آخرالذکر افراد چھپ کر نشہ کرتے ہیں۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ اندازوں سے بھی کہیں گنا زیادہ تعداد میں پاکستانی نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ اس تمام خرابے کا بنیادی سبب بلاشبہ پاکستان میں منشیات کی آزادانہ خرید و فروخت اور اس کی اسمگلنگ ہے۔ دُنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ہولناک حد تک زیادہ ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پوری دُنیا میں 29کروڑ 60لاکھ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں اور اقوام متحدہ نے اقوام عالم پر زور دیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز، حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں، منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے منظم پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ 26جون کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں انسداد منشیات کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان میں اس حوالے سے جو مایوس کن صورت حال دِکھائی دیتی ہے، اُس میں کیا ملک عزیز سے منشیات کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا، کیوں کہ منشیات فروشوں اور سمگلروں کے خلاف ایسی موثر کارروائیاں اب تک نہیں کی جا سکی ہیں کہ جن کی بدولت اس برائی کا پاکستان سے مکمل خاتمہ ہوسکے۔ مانا کہ بھاری مقدار میں منشیات پکڑی ضرور جاتی ہے، اُسے ضائع بھی کردیا جاتا ہے، لیکن اس سے بھی کئی گنا زیادہ مقدار میں منشیات لوگوں کو استعمال کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ منشیات کی تجارت اور اس کی فروخت میں ملوث گروہوں کے ’’بااثر شخصیات’’ کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں، جو انہیں اس گھنائونے دھندے میں مکمل سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ ایسے میں کیونکر اس مکروہ کاروبار کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس بُرائی سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور متعلقہ محکموں کو اب اس برائی کے مکمل خاتمے کے لیے موثر کارروائیاں کرنی ہی ہوں گی، نہ صرف منشیات فروشوں اور سمگلروں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو بھی بے نقاب کرنا اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو یقینی بنانا ہوگا۔ خوش کُن امر یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے منشیات کی روک تھام کے لیے سمگلروں اور اس دھندے میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے، جس کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس کریک ڈائون میں بھرپور تیزی لائے اور اس گھنائونے دھندے کے کردار کو نشان عبرت بنایا جائے۔

جواب دیں

Back to top button