معاشی حالات جلد بہتر ہوں گے

پاکستان سنگین مسائل کے حل کے لیے کوشاں اور ان سے اُبھرنے کی خاطر عظیم کاوشوں میں مصروف ہے۔ 2018کے وسط کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات اور مصائب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب قوم پر بدترین مہنگائی کو مسلط کرنے کا آغاز ہوا، جو گرانی 2030۔35تک آتی، وہ وقت سے بہت پہلے 2022تک بُری طرح غریبوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر اُن کا جینا دوبھر کرچکی تھی۔ لوگوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد مشکل بنادیا گیا۔ گرانی میں یکلخت تین، چار گنا اضافے نے غریبوں کی چیخیں نکال کر رکھ دیں۔ اس کے ساتھ معیشت کے پہیے کو جام کرنے کے لیے ہر منفی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، کاروبار دُشمن اقدامات کے سلسلے رہے۔ بڑے بڑے اداروں کو اپنے کام کو محدود کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لوگوں کے برسہا برس سے جمے جمائے کاروبار برباد ہوگئے۔ وہ سڑک پر آگئے۔ سی پیک پر کام کی رفتار کو سست کیا گیا یا بالکل روک ہی دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ ملک و قوم پر قرضوں کے بار کو ہولناک حد تک بڑھا دیا گیا۔ موجودہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی عالمی مالیاتی ادارے سے پروگرام حاصل کرنا پڑ رہا ہے، جس کی شرائط انتہائی کڑی ہیں، جس کے منفی اثرات عوام الناس پر بھی مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ملک و قوم کو اس دوران ایسی کاری ضرب لگائی گئی، جس سے اُبھرنے میں وقت لگے گا، خدا کا شکر کہ اب معیشت کو درست پٹری پر گامزن کردیا گیا ہے، معیشت کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات متواتر یقینی بنائے جارہے ہیں، بیرونِ ممالک سے عظیم سرمایہ کاریوں کے سلسلے ہیں، صنعتوں کو فروغ مل رہا اور ان کا پہیہ ایک بار پھر تیزی سے گھومنے لگا ہے، پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں پھر سے استحکام اور مضبوطی اختیار کررہا ہے، مہنگائی کا زور ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے، عوام کی حقیقی اشک شوئی کی جارہی ہے، درآمدات میں کمی لائی جارہی ہے جب کہ برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، زرعی شعبے میں انقلاب کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے اور اس حوالے سے قدم بڑھائے جارہے ہیں، زراعت کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں بڑا اضافہ ہونے کے ساتھ خوراک میں خودکفالت کا ہدف حاصل کیا جائے گا، آئی ٹی کے شعبے پر بھی بڑی توجہ دی جارہی ہے اور اس میں انقلاب کے لیے قدم اُٹھائے جارہے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے آئندہ چند سال میں انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ موجودہ اتحادی حکومت کی تعریف نہ کی جائے تو ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ اس کی کاوشیں ہر لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں۔ اس نے ملک اور قوم کو لاحق مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے درست سمت میں قدم بڑھادئیے ہیں۔ یقیناً کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ وہ اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کے حوالے سے خاصی سنجیدہ ہے اور اس ضمن میں اُس کی کاوشیں ڈھکی چھپی نہیں۔ ملکی خزانے پر بوجھ اداروں کی نج کاری کے لیے بھی وہ سنجیدگی سے اقدامات یقینی بنارہی ہے۔ پچھلے دنوں بجٹ پیش کیا گیا، اسی حوالے سے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنانا پڑا ہے، یہی حالات کا تقاضا ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بجٹ میں دودھ، اسٹیشنری، ہائبرڈ الیکٹرک وہیکلز سمیت بعض ضروری اشیا پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رکھا گیا ہے، حکومت ملک کو معاشی مسائل سے نکالنا چاہتی ہے، مہنگائی میں مزید کمی اور صنعتوں کو سہولتوں کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومتی اخراجات میں سادگی اور کفایت شعاری لائی جائے گی، حکومت قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائے گی، اقتصادی مسائل کے حل، معیشت کی ترقی اور معاشی استحکام کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے، تمام شراکت داروں کو مل کر ملکی مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، کوشش ہے کہ اگلا پروگرام پاکستان کے لیے آخری پروگرام ہو۔ ٹیکس اصلاحات کے ذریعے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھارہے ہیں، تاجروں کا ٹیکس نیٹ میں آنا ضروری ہے اور انہیں ٹیکس دائرے میں لایا جائے گا، جو دکان دار تاجر دوست اسکیم کا حصہ نہیں بنیں گے، ان کے خلاف سخت اقدامات ہوں گے جبکہ نان فائلرز کو پرسنل ہیئرنگ کا موقع دیا گیا ہے۔ پنشن اصلاحات سے پنشن اخراجات کو کم کیا جائے گا، کچھ وزارتوں کو بند کرنے یا صوبوں کو دینے کی تجاویز کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ 2024کی بنیاد وہ ہوم گرائونڈ ریفارمز پلان ہے جس کے ذریعے حکومت ملک کو معاشی دیرینہ مسائل سے نکالنا چاہتی ہے۔ حکومت کی نیک نیتی پر چنداں شک نہیں، اُس کی کوششیں ان شاء اللہ ضرور رنگ لائیں گی۔ آئندہ وقتوں میں صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ یہاں وسائل کی چنداں کمی نہیں، بس انہیں درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ چند ہی سال میں ملک و قوم ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن رہتے ہوئے بڑی کامیابیاں سمیٹیں گے۔
قلات: دہشتگرد حملے میں 2جوان شہید
ارض پاک کو ظاہر و پوشیدہ دشمن تباہ و برباد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان 2001سے 2015تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناتے، پاکستان میں بھی بدامنی در آئی۔ اس دہشت گردی کے پیچھے ظاہر و پوشیدہ دشمنوں کی کارستانیوں سے مفر ممکن
نہیں۔ دشمن عرصۂ دراز سے اپنے جاسوسوں کے ذریعے پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو سبوتاژ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس بات کا اعتراف بھارتی ایجنٹس کر بھی چکے ہیں۔ سانحۂ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد آپریشنز ضرب عضب اور ردُالفساد کے ذریعے ملک میں دہشت گردی کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی تھی اور اس کا لگ بھگ خاتمہ کردیا گیا تھا۔ کچھ سال سکون سے گزرے، لیکن امریکا کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بعد پھر سے دہشت گردی کا عفریت سر اُٹھاتا دِکھائی دیا۔ دو ڈھائی سال سے مستقل خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب تک کئی جوان اور افسران ان مذموم کارروائیوں کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے مختلف آپریشنز جاری ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں، کئی دہشت گرد مارے اور گرفتار کیے جاچکے ہیں، متعدد علاقوں کو ان کے ناپاک وجودوں سے پاک کیا جاچکا ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں۔ دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں سے باز نہیں آرہے، گزشتہ روز بھی بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں 2جوان شہید ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قلات میں ایف سی کے دو اہلکار شہید ہوگئے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ضلع قلات کے علاقے اسکلکو میں سیکیورٹی فورسز پر حملے میں ایف سی کے دو جوان شہید ہوئے ہیں، دہشت گردوں کا مقصد ایف سی کے اہلکاروں کو یرغمال بنانا تھا، تاہم اسے ناکام بنادیا گیا ہے۔ میر ضیاء اللہ لانگو نے بتایا کہ پہلے ایک حملہ ضلع قلات کے علاقے خالق آباد میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر کیا گیا۔ اس کے بعد قریب 40سے 50حملہ آوروں نے دوسرا حملہ اسکلکو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نے گیس ایکسپلوریشن کا کام کیا تھا اور دو سال قبل پی پی ایل کے لوگ اس علاقے سے چلے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے کی سیکیورٹی کے لیے ایف سی کی دو پوسٹیں تھیں، جن میں 20کے قریب اہلکار تعینات تھے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے گزشتہ شب اس علاقے میں حملہ کیا، تاکہ ان اہلکاروں کو یرغمال بنا کر لے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف سی، پولیس اور لیویز فورس کے اہلکاروں نے بہادری سے حملہ آوروں کا مقابلہ کرکے 18اہلکاروں کو یرغمال بنانے کی کوشش ناکام بنائی۔ دوسری طرف کالعدم عسکریت پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ ایف سی جوانوں کی شہادت پر پوری قوم اُن کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بناکے پر ہمارے بہادر جوان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ دہشت گرد چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں، وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اُن کے خلاف جاری آپریشنز کے ذریعے جلد ہی اُن کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔





