حرام گوشت کی فروخت پر سخت قانون سازی کی ضرورت

رفیع صحرائی
ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں شہر یا گائوں میں کھیتوں میں چھپ کر گدھا ذبح کرتے ہوئے دو یا تین افراد گدھے سمیت پکڑے گئے۔ لوگوں نے فوراً پولیس کو اطلاع دے دی جس نے موقع پر پہنچ کر ان افراد کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا۔ گرفتار شدہ ملزموں کے بیان کے مطابق وہ گزشتہ کئی ماہ سے لاہور کے مختلف علاقوں کے بڑے بڑے ریسٹورنٹس کو گدھے کا گوشت سپلائی کر رہے تھے۔
لاہور کے ہوٹلوں کو گدھے کا گوشت سپلائی کرنے والے یہ واحد ملزمان نہیں ہوتے۔ یہ دھندہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ اس گھنائونے فعل کا ارتکاب کرنے والے کئی مرتبہ پکڑے گئے ہیں مگر یہ مکروہ دھندا کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
گدھے کے گوشت کے علاوہ مردہ مرغیوں کا گوشت فروخت کرنے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ گرمی کے موسم میں تو یہ کام بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ برائلر مرغی بہت نازک مزاج ہوتی ہے۔ موسم کی سختی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر گرمی کا موسم تو اس کے لیے بڑا ہی شدید ہوتا ہے۔ بہت سی مرغیاں پولٹری فارم میں گرمی کی حدت سے مر جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جب مرغیاں سپلائی کی جاتی ہیں۔ تو سپلائی والی گاڑی میں سیکڑوں مرغیاں لدی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شدید حبس ہو جاتا ہے اور بہت سی مرغیاں سپلائی کے دوران بھی مر جاتی ہیں۔ ان مرغیوں کو ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ زندہ مرغیوں کے ساتھ ہی یہ مرغیاں بھی ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، بیکریوں اور برگر شوارما بنانی والوں کو کم قیمت پر فروخت کر دی جاتی ہیں۔ پولٹری فارمز والے بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں جبکہ فاسٹ فوڈ اور دیگر پراڈکٹ بنانے والے سستا گوشت حاصل کر کے اپنے منافع کا مارجن بڑھا لیتے ہیں۔ رہے گاہک تو ان کی فکر کس کو ہے۔ گاہکوں کی فکر وہ کرے جسے اپنی آخرت کی فکر ہو۔ دنیاوی منافع کی خاطر دینی نقصان کر کے گھاٹے کا سودا کرنے والے موت کو بھی بھولے ہوئے ہیں اور دینی تعلیمات سے بھی بے بہرہ ہیں۔ آپ نے ایسا ہوتے بھی دیکھا ہو گا کہ مرغی کا گوشت خریدنے جائیں تو گندے اور خون آلود میلے کپڑوں میں ملبوس گوشت بیچنے والا آپ کو نظر آئے گا جس کے منہ میں پان ہو گا۔ پان کی سرخی رال کی صورت میں اس کی باچھوں سے بہہ رہی ہو گی یا پھر اس نے منہ میں نسوار رکھی ہو گی۔ بات کرتے وقت اس نسوار کی بدبو کے بھبھکے گاہک کے صبر کا امتحان لے رہے ہوتے ہیں۔ وہ گاہک سے باتیں کرتے کرتے مرغی کے گلے پر چھری پھیر دیتا ہے۔ نہ اسے تکبیر پڑھنا یاد رہتا ہے اور نا ہی گاہک کا دھیان اس طرف جاتا ہے۔ گوشت خریدتے وقت گاہک کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
لوگوں کو مردار گوشت کھلانے میں قسائی حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ مردہ بھینس، گائے، بچھڑا وغیرہ فوراً خرید لیتے ہیں۔ گوشت پر ویٹرنری ڈاکٹر کی مہریں لگانا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اکثر کے پاس تو اپنی مہریں موجود ہوتی ہیں۔ مہر نہ بھی ہو تو صحت مند گوشت کے ساتھ ٹکڑوں کی صورت میں گاہکوں کو مردہ گوشت بھی فروخت کر دیا جاتا ہے۔
مردہ جانور یا گدھے کا گوشت فروخت کرنے کے پیچھے لالچ کے علاوہ جذبہ مسابقت بھی شامل ہے۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں یہ لوگ اپنی آخرت کی فکر سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ نہ کسی کو اللّٰہ کا ڈر ہے اور نہ ہی قانون کا خوف ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کو خدا سے زیادہ قانون اور پولیس کا ڈر ہوتا ہے۔ سخت سزا کا خوف جرم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ میں نے نوجوان وکیل ملک بلال سے رابطہ کر کے مردہ اور گدھے کا گوشت فروخت کرنیوالوں کے لیے سزا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ قابلِ ضمانت جرم ہے۔ اس جرم کے مرتکب فرد کی فوراً ہی ضمانت ہو جاتی ہے۔ اگر ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی جائے تو وہ ضمانت، پکی ضمانت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کیس چلتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا چھ ماہ قید ہے۔ ملک بلال ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ اگر ایک مرتبہ کا سزا یافتہ شخص دوبارہ اسی جرم کا ارتکاب کرے اور جرم ثابت ہو جائے تو اسے دو سال قید کی سزا ہو گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جب پکڑے جاتے ہیں تو عدالت سے ضمانت پر رہا ہو کر واپس آ جاتے ہیں۔ اور اپنا مکروہ دھندہ دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ان کو سزا ہوتے اور جیل جاتے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف سرکار کی طرف سے پرچہ درج ہوتا ہے۔ کبھی مدعی پولیس ہوتی ہے تو کبھی ویٹرنری ڈاکٹر مدعی ہوتا ہے۔ ایسے مقدمات میں گواہ پولیس اپنی مرضی کے رکھتی ہے جو کبھی عدالت میں گواہی کے لیے پیش نہیں ہوتے۔ نتیجے کے طور پر ملزم بے گناہ ثابت ہو کر بری ہو جاتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ملک میں مردہ اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے اس مکروہ دھندے کی روک تھام کے لیے سخت سزا دینے والی قانون سازی کی جائے۔ اسے ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔ ملزمان کے خلاف بھرتی کے گواہ نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ایسے مضبوط گواہ ہوں جنہیں اپروچ نہ کیا جا سکے اور وہ اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے عدالت میں پیش ہوں۔ جرم ثابت ہونے پر کم از کم سزا پانچ سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ مقرر کی جائے۔ مردہ گوشت خریدنے والے ریسٹورنٹس، بیکری مالکان اور فاسٹ فوڈ شاپس کے مالکان کو بھی یہی سزا دیتے ہوئے ان کا کاروباری لائسنس منسوخ کیا جائے۔ تاکہ یہ لوگ عوام کو حرام گوشت اور اس سے بنی ہوئی پراڈکٹس فروخت کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں۔





