سنی اتحاد کی مخصوص نشستوں کا مقدمہ: سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے

پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ سوموار کے دن مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق انتخابات سے قبل فہرست جمع نہ کروانے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں کیوں کہ مخصوص نشتوں کی فہرست جمع کرانے کی آخری تاریخ 24 جنوری تھی لیکن سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کرائی۔
الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ امیداروں سے تحریک انصاف نظریاتی کا انتخابی نشان دینے کا سر ٹیفکیٹ مانگا گیا، بعد ازاں امیدوار تحریک انصاف نظریاتی کےانتخابی نشان سے خود دستبردار ہوئے اور پی ٹی آئی نظریاتی کے انتخابی نشان سے دستبردار ہونے کے بعد امیدوار آزاد قرار پائے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے تو سنی اتحاد کونسل کو الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں نہ دینے کا چار ایک سے فیصلہ دیا اور پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے لیے اہل نہیں اور مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے آئین کے مطابق کوئی غیر مسلم جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا اور سنی اتحاد کونسل کے آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اسی لیے سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں۔
دوسری جانب سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کےکیس میں اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں ہیں۔ کنول شوزب کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرائیں جن میں الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے دو کامیاب ارکان کے نوٹیفکیشن بھی لگائے گئے جبکہ آزاد امیدوار قرار دینے کےخلاف درخواست پر الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی دستاویزات میں شامل ہے۔
اضافی دستاویزات میں الیکشن کمیشن کا آزاد اراکین سے متعلق 2 فروری کا فیصلہ بھی لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ کرنے کیلئے اضافی دستاویزات کی بہت اہمیت ہے لہٰذا اضافی دستاویزات کو کیس کے لیے عدالتی ریکارڈ پر لانے کی اجازت دی جائے۔
یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا اور اس اپیل کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے سے متعلق یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو مل گئی تھیں تاہم اس فیصلے کی معطلی کے بعد حکمران اتحاد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے آزاد حثیت میں الیکشن جیتے تھے جس کے بعد انھوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔







