انسدادِ دہشت گردی کیلئے آپریشن ’’عزمِ استحکام’’ کی منظوری

پاکستان نے سانحہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا خمیازہ ڈیڑھ عشرے تک بدترین دہشت گردی کی صورت بھگتا، 80ہزار بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، ان میں بڑی تعداد سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران اور جوانوں کی بھی شامل تھی۔ روزانہ ہی ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات پیش آتے تھے، جن میں درجنوں لوگ لقمہ اجل بنا دئیے جاتے تھے۔ کئی اہم شخصیات بھی ان واقعات کی بھینٹ چڑھیں، جن میں ملک کے چوٹی کے سیاست دان بھی شامل تھے۔ ملک کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں تھا۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا، وہ گھروں سے نکلتے ہوئے خوف و ہراس کی کیفیت کا شکار ہوتے تھے کہ واپسی اپنے پیروں پر آئیں گے یا دوسروں کے کاندھوں پر۔ مسلسل دہشت گردی کے کالے بادل چھائے رہنے کے باعث معیشت کو اتنے زیادہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچے کہ ان کے ازالے کے لیے ابھی بھی برسہا برس لگیں گے۔ وطن عزیز سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں نے بیرونِ ممالک کا رُخ کیا۔ دسمبر 2014میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاک افواج نے فیصلہ کُن آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا اور اس کے ذریعے بڑی کامیابیاں سمیٹیں، ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا گیا، گرفتار کیا گیا، اُن کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کردیا گیا۔ بدترین بدامنی کے شکار علاقوں کو کلیئر کرایا گیا، وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر بنائی گئی۔ ضرب عضب کے بعد آپریشن ردُالفساد شروع ہوا، ان آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ ان آپریشنز کی زد سے جو دہشت گرد بچے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی عافیت سمجھی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ یہ امن پاک افواج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی مرہونِ منت تھا۔ 7؍8سال تک امن و امان کی صورت حال بہتر رہی، سرمایہ کار بھی وطن عزیز کا رُخ کرنے لگے۔ کھیلوں کے میدان آباد ہونے لگے کہ دہشت گردی کے باعث بیرون ممالک کی ٹیمیں پاکستان آنے سے گریزاں رہتی تھیں، لیکن افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پھر سے رونما ہونے لگے۔ اس بار شرپسندوں کا نشانہ سیکیورٹی فورسز ہیں۔ پچھلے دو سال سے مسلسل سیکیورٹی فورسز پر حملے ہورہے ہیں۔ غیر ملکی باشندے بھی دہشت گردوں کا خاص ہدف ہوتے ہیں، تاکہ پاکستان کے بیرونی دُنیا سے تعلقات کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ سیکیورٹی چیک پوسٹس، قافلوں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے سلسلے ہیں۔ متعدد جوان جام شہادت نوش کرکے ملک پر جان قربان کرچکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف آپریشنز میں مصروفِ عمل ہیں اور بڑی کامیابیاں اُنہیں مل رہی ہیں۔ دہشت گردوں کو چُن چُن کر مارا، گرفتار کیا جارہا اور ان کے
ٹھکانے ختم کیے جارہے ہیں، علاقوں کو ان سے کلیئر کرایا جارہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غیر ملکیوں پر حملوں کے واقعات کے باعث بیرونی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری سے گریزاں اور تذبذب میں مبتلا دِکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ سیکیورٹی فورسز غیر ملکی باشندوں خصوصاً چینیوں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بناتی چلی آرہی ہیں۔ امن و امان کی فضا قائم ہونے سے عظیم سرمایہ کاری متوقع ہے۔ بیرونی تاجروں کے لیے یہاں وسیع مواقع موجود ہیں۔ موجودہ حکومت معاشی بحالی کے مشن پر گامزن ہے اور اس کے لیے امن و امان کی مکمل بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو اس کا ادراک بھی ہے۔ اسی لیے گزشتہ روز ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے آپریشن ’’عزمِ استحکام’’ کی منظوری دی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشن ’’عزمِ استحکام’’ کی منظوری دے دی گئی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سمیت وفاقی کابینہ کے اہم وزرا، تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس نے اجلاس میں شرکت کی۔ اعلامیے کے مطابق فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم اور داخلی سلامتی کی صورت حال کا جائزہ کیا اور انسداد دہشت گردی کی جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشن ’’عزمِ استحکام’’ کی منظوری دی اور کہا کہ ملک سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے، آپریشن عزم استحکام دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سفارتی کاوشوں سے دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کریں گے اور کسی کو ریاست کی رِٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فورم نے اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ اجلاس میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے ایس او پیز جاری کر دئیے گئے۔ ایپکس کمیٹی اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ’’ عزمِ استحکام’’ کی منظوری مستحسن فیصلہ ہے۔ ان شاء اللہ اس آپریشن کے نتیجے میں ملک سے دہشت گردی کی لعنت کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اُن کی شر پسندی کے تمام تر راستے مسدود ہوجائیں گے۔ امن و امان کی فضا مکمل بحال ہوگی۔ پاکستان پہلے بھی دہشت گردی سے تن تنہا نمٹ چکا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا اور جلد ہوگا۔ معیشت کی بحالی کے حوالے سے صورت حال خاصی حوصلہ افزا ہے، یہ دھرتی وسائل سے مالا مال ہے، انہیں درست خطوط پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا ہے۔ صنعتوں کو فروغ ملنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات جاری ہیں۔ زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک سے عظیم سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے۔ بیرون ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے آپریشن ’’ عزم استحکام’’ اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔ ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے نیک نیتی کے ساتھ قدم بڑھا دئیے گئے ہیں، محض چند سال کی مسافت پر کامیابی بانہیں کھولے شدّت سے منتظر ہے۔
پنجاب: ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کے خلاف بڑا فیصلہ
وطن عزیز میں خالص شے خاصی تلاش و بسیار کے بعد بہ مشکل ہی میسر آپاتی ہے۔ یہاں غیر معیاری، مضر صحت، ملاوٹ شدہ اشیاء کی بھرمار ہے، جو انتہائی گراں نرخوں پر لوگوں کو دستیاب ہوتی ہیں اور اُن کی صحتوں کو برباد کرنے کی وجہ بنتی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ یہاں شہد تک خالص نہیں، ملاوٹ شدہ اور جعلی ہوتا ہے اور لگ بھگ پورے ملک کے اکثر عوام کے ساتھ شہد کے نام پر بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ تیل، گھی، پتی، آٹا، دالوں میں ملاوٹ عام ہے۔ حتیٰ کہ معصوم بچوں کے لیے کنفیکشنری آئٹمز تک ملاوٹ سے محفوظ نہیں۔ اس کے ساتھ یہ انتہائی مضر صحت بھی قرار پاتی ہیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کی ہر جگہ دھجیاں اُڑتی دِکھائی دیتی ہیں۔ لوگوں کی صحت کے ساتھ سنگین کھلواڑ جاری ہے، کوئی روکنے ٹوکنے والا دِکھائی نہیں دیتا۔ اس پر طرّہ کہ ذخیرہ اندوز اور منافع خور عوام کی جیب پر نقب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کا مطمع نظر بس اپنی تجوریاں دھانوں تک بھرلینا مقصد ہے، لوگوں کی صحت کا کباڑا ہوتا ہے یا اُن کے لیے گراں اشیاء مزید ہولناک بوجھ بنتی ہیں، اس سے انہیں چنداں سروکار نہیں ہوتا۔ ایسے عناصر کے خلاف جب شور اُٹھتا ہے تو چند دِکھاوے کی کارروائیاں ہوتی ہیں اور اس کے بعد راوی چَین ہی چَین لکھ رہا ہوتا ہے۔ عوام کی صحت کو تحفظ دینے اور انہیں مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہونے سے بچانے کے لیے ملاوٹ مافیا، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز پنجاب میں بڑا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے دوررس نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف پنجاب انفورسمنٹ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اتھارٹی کے قیام کا مقصد شہریوں کو سرکاری نرخوں پر اشیا کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ پنجاب انفورسمنٹ اتھارٹی کھانے پینے کی اشیا کا معیار بھی چیک کرے گی اور ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی بھی نگرانی کرے گی۔ پنجاب انفورسمنٹ اتھارٹی صوبے بھر میں ملاوٹ کے خاتمے کے لیے چھاپے مارے گی اور اسے جرمانوں کا بھی اختیار ہوگا۔ یہ اتھارٹی اشیا کے معیار اور ان کی تیاری میں حفظان صحت کے اصولوں کے حوالے سے اقدامات کرے گی۔ پنجاب انفورسمنٹ اتھارٹی تجاوزات کے خاتمے کے لیے انتظامیہ سے مل کر اقدامات کرے گی۔ پنجاب انفورسمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ مستحسن اور ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے بہت کم عرصے میں صوبے کے عوام کی بہتری، فلاح و بہبود کے لیے بڑے اقدامات کیے ہیں، جن کی ہر سطح پر تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔ انفورسمنٹ اتھارٹی کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس اتھارٹی نے اپنا کردار شفاف طریقے سے ادا کیا تو کروڑوں عوام کا بھلا ہوگا۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی پنجاب حکومت کے اس فیصلے کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ہاں بھی ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو ملاوٹ مافیا، ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے پاک کرنا ناگزیر ہے۔





