بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع بروئے کار لائے جائیں

ملک کے عوام کی اسے بدقسمتی نہیں تو اور کہیں کہ وہ خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ چین، بھارت، بنگلادیش، مالدیپ، سری لنکا اور دیگر ملکوں میں بجلی کے نرخ انتہائی معمولی ہیں اور وہاں کے عوام کو اس سہولت کے بدلے اپنی آمدن کا بہت ہی معمولی حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے، پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے، غریبوں کے ماہانہ بجلی بل بعض اوقات اُن کی آمدن سے بھی زائد ہوتے ہیں، وگرنہ آمدن کا بڑا حصّہ تو بجلی بل ہی ڈکار جاتا ہے، جہاں ہوش رُبا بل غریبوں کا مقدر ہیں، وہیں بجلی بھی انہیں بلاتعطل دستیاب نہیں ہوتی۔ بجلی کے ہوش رُبا نرخ کے تناظر میں لوڈشیڈنگ کو بھی اب لوگ نعمت سے کم نہیں گردانتے کہ زیادہ وقت بجلی معطل رہنے سے ان کے سرپٹ دوڑتے میٹر آرام فرماتے اور اُن کے ہائی بلڈپریشر میں کمی کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔ اکثر عوام کے 24میں سے 12گھنٹے لوڈشیڈنگ ہونے کے سبب بل آدھے ہوجاتے ہیں، ہوش رُبا مہنگائی کے اس دور میں اس پر بھی وہ شکر بجالاتے ہیں کہ چلو بجلی نہ دے کر ایک طرح سے ہماری ہی مدد کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اتنی زیادہ مہنگی بجلی ہونے کی وجہ تلاش کی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ یہاں پچھلے دو ڈھائی عشروں میں کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ سستی بجلی کے حصول اور پیداوار پر چنداں توجہ نہیں دی گئی۔ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع پر ہی تکیہ کیا جاتا رہا۔ پوری دُنیا جب سورج، ہوا اور پانی سے بجلی کشید کررہی تھی تو ہم ایندھن جلا کر اس کی مہنگی پیداوار پر خوش اور پُرجوش تھے۔ اب پچھلے چند سال سے یہ عالم ہے کہ بجلی کے نرخوں میں ہوش رُبا اضافے مسلسل دیکھنے میں آرہے ہیں، نت نئے ٹیکسز عائد کیے جارہے ہیں، بجلی بلوں میں کئی ٹیکسز قوم سے وصول کیے جارہے ہیں، اس صورت حال سے غریبوں کا بھرکس سا نکل گیا ہے۔ غریبوں کی حقیقی اشک شوئی اُسی وقت ہوسکتی ہے جب بجلی کی پیداوار کے متبادل سستے ذرائع (ہوا، پانی، سورج) پر تمام تر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان سے ہی بجلی حاصل کی اور غریب قوم کو فراہم کی جائے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور جب سے اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے، ملک و قوم کے مصائب اور مشکلات میں کمی لانے کے لیے شبانہ روز کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ پہلی بار کسی سربراہ مملکت نے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے ذرائع کی حوصلہ شکنی سے متعلق لب کُشائی کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت مہنگی بجلی پیدا کرنے والے ذرائع کی حوصلہ شکنی کرے گی اور متبادل توانائی خصوصاً شمسی توانائی کے شعبے کی ترویج کی خواہاں ہے، گردشی قرضہ، لائن لاسز اور بجلی چوری اس وقت پاکستان کے توانائی کے شعبے کی بڑے مسائل ہیں، بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری اور آئوٹ سورسنگ حکومتی ترجیح ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم سے جارجیا کے سابق وزیراعظم نیکا گلائوری کی سربراہی میں توانائی کے شعبے کے غیر ملکی ماہرین کے وفد نے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان میں پاور سیکٹر اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات معاشی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، حکومت ایسی پالیسیوں پر کام کررہی ہے جس سے گردشی قرضوں میں کمی ہو اور بجلی کے بلوں کی وصولی کا طریقہ کار بہتر کیا جاسکے۔ مزید برآں وزیراعظم نے کہا ہے کہ تعلیم کا فروغ ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے، تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ تعلیم کے شعبے میں حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے، ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے چیلنج کو مواقع میں تبدیل کیا جائے گا، ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں قابل طالب علموں کو لیپ ٹاپ فراہم کیے جارہے ہیں، دانش اسکولز کا دائرہ کار اسلام آباد ، گلگت بلتستان ، آزاد جموں و کشمیر ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کم ترقی یافتہ علاقوں تک پھیلایا جا رہا ہے، گوگل کے پاکستان میں کروم بک بنانے کا پلانٹ لگانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وزیراعظم سے منیجنگ ڈائریکٹر کیوین کیلز کی سربراہی میں گوگل فار ایجوکیشن کے اعلیٰ سطح کے وفد نے وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں ملاقات کی۔ وفد میں گوگل فار ایجوکیشن کے آٹھ ممالک کے نمائندگان شامل تھے۔ وفد کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایک چیلنج ضرور ہے تاہم اس چیلنج میں سے مواقع تلاش کیے جائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع کو چھوڑ کر سستے ذرائع سے توانائی کا حصول ممکن بنایا جائے تو ناصرف غریب عوام کی اشک شوئی ہوسکے گی، بلکہ صنعتی پہیہ بھی تیزی سے گھومے گا، ملک میں سستی پیداوار تیزی سے بڑھے گی، کاروبار فروغ پائے گا، بجلی بلز خاصے کم ہوجائیں گے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کو بجلی کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑانے کی سبیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے سستے ذرائع سی ہی بجلی کا حصول یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنائے جائیں اور اُنہیں ہنگامی بنیادوں پر پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ آبی ذخائر چھوٹے ہوں یا بڑے، اُنہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں تعمیر کیا جائے۔ اس سے ناصرف برسہا برس کی آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا، بلکہ اس کے ذریعے وافر بجلی کا حصول بھی یقینی بن سکے گا۔ بس ملک اور قوم کے مفاد میں نیک دلی کے ساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، منزل جلد مل جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر: بھارتی دہشتگردی، 2نوجوان شہید
بھارت تسلیم شدہ دہشت گرد ریاست ہے، جو پچھلے 76سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا چلا آرہا ہے، لاکھوں لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے، کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں، کتنی ہی نیم بیوگی کی زیست گزار رہی ہیں، کتنے ہی بچے یتیم کیے جاچکے ہیں، کتنی مائوں کی گودیں اُجڑ چکی ہیں، کوئی شمار نہیں۔ ظلم و ستم کی بدترین تاریخ اس سے منسوب ہے۔ کون سا ایسا جبر ہے جو اس نے نہ آزمایا ہو، کون سا ہتھکنڈا ہے جو مظلوم کشمیریوں کو جدوجہد آزادی سے باز رکھنے کے لیے اختیار نہ کیا گیا ہو، معصوم بچوں تک سے حقِ زیست چھین لینے میں بھارت کے سفّاک فوجی نہیں چُوکے، 915 بچوں کو پچھلے 35سال میں زندگیوں سے محروم کیا جاچکا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو جدوجہدِ آزادی سے باز رکھنے کے لیے تمام تر حربے آزمائے گئے۔ بھارتی فورسز گھروں پر دھاوے بول کر بے گناہ لوگوں کو گرفتار کرکے لاپتا کردیتی ہیں، اُن کے اہل خانہ برسوں انتظار میں رہتے ہیں، لیکن اُن کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا، کشمیری حریت قیادت کے لیے بھی عرصۂ حیات تنگ ہے۔ کشمیر کے اہم رہنما بھارتی جیلوں میں انتہائی مشکلات سے دوچار ہےں، کئی کی طبیعتیں انتہائی ناساز ہیں، اس کے باوجود اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اُنہیں آزادی کے مطالبے سے پیچھے ہٹانے کے لیے مذموم کوششیں جاری ہیں، لیکن سلام ہے اُن عظیم رہنمائوں پر جو بھارت کے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے سامنے آہنی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت آئے روز بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ روز بھی اس نے 2کشمیری نوجوان شہید کردئیے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں مزید 2کشمیری نوجوان شہید ہوگئے۔ عالمی میڈیا کے مطابق جنت نظیر وادی کے ضلع بارہ مولا میں نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر بھارتی فوج نے گھر گھر تلاشی لی اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ سرچ آپریشن کے دوران قابض بھارتی فوج نے ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 2نہتے کشمیری نوجوان شہید ہوگئے، جن کی تاحال شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے قابض بھارتی فوج نے لاشیں پولیس کے حوالے کردیں۔ صحافیوں کو جائے وقوعہ پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اِدھر 20جون کو مودی دو روزہ دورے پر سری نگر پہنچ گیا اور متعدد نام نہاد ترقیاتی منصوبوں اور پروگراموں کا افتتاح کیا۔ دوسری طرف مودی کے دورے کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ بھارت چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگالے، وہ کشمیری مسلمانوں کو جدوجہد آزادی کے مطالبے سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ کشمیری مائیں ایسے بیٹوں پر فخر کرتی ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک روز بروز توانا ہورہی ہے۔ ایک روز ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اقوام متحدہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا تصفیہ کرانے میں اپنا کردار ادا کریں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں کے مطابق وہاں بسنے والوں کی مرضی کے مطابق کیا جائے۔





