ColumnImtiaz Aasi

یوم عرفہ

امتیاز عاصی
آج عرفہ کا دن ہے وقوف عرفات حج کا اہم رکن ہے، کوئی عرفات میں وقوف سے محروم رہ گیا اس کا حج نہیں ہوتا۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں فرزندان اسلام آج ظہر سے پہلے عرفات کے میدان میں پہنچیں گے جہاں وہ ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کریں گے ۔ عرفات کے دن کے لئے عازمین حج عمر بھر انتظار کرتے ہیں۔ عرفات میں دو سفید چادروں میں ملبوس حجاج کرام منعم حقیقی سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی بخشیش مانگتے ہیں۔ قیامت کا سماں ہوتا ہے حجاج کرام رو رو کر اپنے رب سے گناہوں کی معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ عرفات پہنچے والوں کو دیرینہ خواہش ہوتی ہے وہ مسجد نمرہ میں امام صاحب کا خطبہ سن سکیں مگر لاکھوں حجاج میں صرف چند ہزار مسجد میں پہنچ پاتے ہیں جہاں رسالت مآب ٔ نے حج کا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ بعض روایات کے مطابق سرکار دو عالمؐ نے خطبے کا کچھ حصہ جبل رحمت پر فرمایا تھا اسی لئے حجاج سخت گرمی کے باوجود جبل رحمت پر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ و علیہ وسلم کا خطبہ تا قیامت امت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ نبی آخر الزمانؐ نے ارشاد فرمایا تھا عرفہ کے روز تمام نسلی امتیازات مٹا دیئے گئے ہیں نہ کالے کو گورے نہ گورے کو کالے پر فوقیت ہے ۔ آپؐ کا ارشاد تھا میں تمہارے درمیان ایک ایسی کتاب چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھوں گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ عرفہ میں حجاج اپنے رب سے لو لگائے ہوتے ہیں کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا خیال نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوتا ہے ۔ ویسے کوئی سال بھر عرفات کے میدان میں ٹھہرا رہے اس کا حج نہیں ہوتا حج صرف اسی کا ہوتا ہے جو ذولجہ کی نو تاریخ کو میدان عرفات میں وقوف کرتا ہے۔ ایک زمانے میں عرفات میں برائے نام خیموں سے شہر آباد کیا جاتا تھا وقت گذرنے کے ساتھ نئی نئی سہولتوں نے حج کو آسان بنا دیا ہے ورنہ حج کی نیت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ سے حج آسان کرنے کی دعا کا مقصد سمجھ میں آتا ہے حج ایک مجاہدہ ہے۔ آج کل عرفات کے خیموں کو ایئر کنڈیشنز سے آراستہ کر دیا گیا ہے جو حجاج مسجد نمرہ نہیں پہنچ پاتے وہ اپنے اپنے خیموں میں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ سعودی حکومت ایسے حجاج کرام جو سعودی عرب پہنچنے کے بعد بیمار ہوجاتے ہیں بعض حجاج جو عارضہ قلب میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں سعودی ایمبولنس میں آکسیجن کے ٹینٹ میں عرفات میں وقوف کے لئے لایا جاتا ہے۔مرحوم شاہ فہد کہا کرتے تھے کوئی حاجی حج سے محروم رہتا ہے تو روز قیامت فہد سے باز پرس ہوگی یہ ہے وہ احساس ذمہ داری جسے سعودی حکومت بڑی ذمہ داری سے ادا کرتی ہے۔ نو ذولحجہ کو حجاج نے مزدلفہ کے کھلے میدان میں رات گذانا ہوتی ہے جہاں انہوں نے جمع صلاطین ادا کرنی ہوتی ہیں یعنی مغرب اور عشاء کی نمازیں قصر ادا کرنی ہوتی ہیں وہیں سے حجاج جمرات کی رمی کے لئے کنکریاں اٹھاتے ہیں۔ اگرچہ حجاج کو مزدلفہ میں رات گزارنا واجب ہے تاہم آپؐ نے بیمار بوڑھوں اور خواتین کو مزدلفہ سے آدھی را ت کے بعد منیٰ جانے کی اجازت دے دی تھی۔ دس ذولحجہ کی صبح فجر کی نماز اور طلوع آفتاب کے بعد وقوف کرنے کے بعد حجاج نے منی چلے جانا ہوتا ہے جہاں وہ زوال سے پہلے بڑے جمرے کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں جس کے بعد وہ طواف زیارت کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہو جاتے ہیں جہاں عام لباس میں طواف کرنے کے بعد انہیں صفا مروہ کی سعی کرنی ہوتی ہے۔ اسی روز مغرب سے قبل انہیں منی میں اپنے خیموں میں واپس پہنچنا ہوتا ہے۔ اگلے روز زوال کے بعد حجاج نے تینوں جمرات کی رمی کرنی ہوتی ہے یعنی تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔ اس سے اگلے روز اسی طرح تینوں جمرات کی رمی کرنے ہوتی ہے جس کے بعد وہ مکہ مکرمہ واپس لوٹ آتے ہیں۔ اپنے وطن واپسی سے قبل انہیں بیت اللہ شریف کا الوداعی طواف کرنا ہوتا ہے جس کے بعد مکہ مکرمہ میں
قیام کا حکم نہیں بلکہ مکہ مکرمہ چھوڑنا ہوتا ہے۔ منیٰ میں بھگدڑ سے بچنے کے لئے سعودی حکومت نے جمرات جانے والے راستے کو یکطرفہ کر دیا ہے جس کے بعد حادثات میں بہت کمی واقع ہو گئی ہے۔ سعودی حکومت نے مشاعر مقدسہ کے انتظامات میں بڑی تبدیلیاں کردی ہیں، حج کرنے والوں کو منیٰ اور عرفات میں داخلے کے لئے خصوصی شناخت نامے جاری گئے ہیں۔ ایسے زائرین جو عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ آئے تھے حج کے ایام میں مکہ مکرمہ میں قیام کئے ہوئے تھے ان کی بہت بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔عازمین حج میں سے کسی نے منی اور عرفات میں اے کیٹیگری کیوں نہ لی ہو اسے قیام کے لئے ایک میٹر جگہ فراہم کی گئی ہے حالانکہ کیٹیگری اے والوں نے خیموں کے لئے دس ہزار ریال ادا کءے ہیں۔ کیٹیگری بی والوں کو بھی ایک میٹر جگہ مہیا کی گئی ہے لیکن ان سے دس ہزار کی بجائے تین ہزار ریال وصول کئے گئے ہیں۔ روڈ ٹو مکہ پروگرام کے تحت عازمین حج کا امیگریشن پاکستان سے ہوگیا تھا لیکن سعودی عرب پہنچنے کے بعد وہ اپنے سامان سے محروم ہو گئے۔ روڈ ٹو مکہ کے تحت امیگریشن کرانے والوں کے سامان کی جانچ پڑتال پاکستان میں ہوائی اڈوں پر ہو جاتی ہے اور ان کا سامان ان کی قیام گاہوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سعودی حکومت کی ہے بدقسمتی سے عازمین حج کی بڑی تعداد سامان سے محروم ہوئی ہے۔ دنیا کے کسی مذہب میں حج ایسا بڑا اجتماع کہیں نہیں ہوتا۔ نبی آخرالزمانؐ نے حج بارے فرمایا تھا جس نے طیب مال سے میرے بتلائے ہوئے طریقوں سے حج کیا گویا وہ ایسے ہو گیا جیسے وہ پیدا ہوا ہے۔ طواف زیارت سے فارغ ہونے کے بعد وہ حجاج جنہوں نے مدینہ منورہ جانا ہوتا ہے وہ مدینہ منورہ روانہ ہوجاتے ہیں جو حج سے قبل روضہ اقدس کی زیارت کر چکے ہوتے ہیں اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا ہے حجاج کرام حج کی سعادت کے بعد بخیروعافیت واپس وطن لوٹیں۔ ( امین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button