Ali HassanColumn

بجٹ کی پر اسراریت

علی حسن
پاکستان کو آئندہ مالی سال میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر 9775ارب روپے سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان کے 18000ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں میں سود کی ادائیگی 50فیصد ہے۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال میں 12970ارب روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کا تخمینہ لگایا ہے جب کہ نان ٹیکس ریونیو سے 4845ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں مختلف ذرائع سے 7500ارب روپے قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں 1363ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز بجٹ میں دی ہے۔
وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان کے 18000ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں میں سود کی ادائیگی 50فیصد ہے۔ آئندہ مالی سال میں 12970 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کا تخمینہ لگایا ہے جب کہ نان ٹیکس ریونیو سے 4845ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں مختلف ذرائع سے 7500 ارب روپے قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں 1363ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز بجٹ میں دی ہے۔ پاکستان کو آئندہ مالی سال میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر 9775ارب روپے سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔ ان تخمینوں سے عوام کو کیا ملنا ہے۔ کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ وزیر خزانہ کی تقریر سے جو تصویر ابھر رہی ہے وہ تو ان طبقہ کے ہاتھ پائوں پھلانے کے لئے کافی ہے۔ ناخواندہ، کم تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عوام کو تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے ۔ وہ تو بس یہ ہی تبصرہ کرتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان کے اس تبصرے سے اس ملک میں اختیارات استعمال کرنے والے طبقہ پر کوئی فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ انہیں بجٹ میں اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ پوری وفاقی کابینہ بشمول مانگے تانگے پر لئے ہوئے وزیر خزانہ کیسا بھی بجٹ ہو، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان تمام افراد کے تمام اخراجات تو حکومت کے خزانہ سے جانے ہیں۔ کیا کسی بھی ملک کا بجٹ جیسا پاکستان کا بنایا گیا ہے، کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ کامرس کا ایک طالب علم، محکمہ خزانہ کا سیکشن افسر بھی کم و بیش ایسا ہی بجٹ تیار کر سکتا ہے۔ اس کی تیاری یا آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کرنے کے لئے موجودہ وزیر خزانہ جتنا مہنگا فرد کیوں مقرر کیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقوں میں کسی کو کسی قسم کا احساس یا ذہنی کوفت نہیں ہوتا ہے کہ پاکستان جس بری طرح قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اس کے پیش نظر تو پیسے پیسے کو دانتوں سے پکڑ کر خرچے کرنا چاہئے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف ہوں، اسحاق ڈار سمیت ان کے وزراء ہوں، بہت بااختیار حکام ہوں ، احساس نہیں ہے۔ پیسے ان کی جیب تو جانے نہیں ہیں۔
معروف اینکر اور صحافی رئوف کلاسرا نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ ’’ ایک بینکر وزیرخزانہ ہمیشہ اس لیے لایا جاتا ہے کہ اسے برسوں کی ایک ہی عادت ہوتی ہے لوگوں کی جیبوں سے ڈیپازٹ کے نام پر پیسہ نکلوانے کی۔ جتنا بڑا ڈیپازٹ آپ اکٹھا کریں گے بینک اتنا بڑا عہدہ اور مراعات دے گا۔ آج وزیرخزانہ کی تقریر سن لیں۔ انہوں نے تقریبا ایک سو بار ٹیکس کا لفظ اپنی تقریر میں استعمال کیا ہوگا کہ وہ کیسے حکومت پاکستان کے مین بینکر کے طور پر کتنا روپیہ لوگوں کی جیبوں سے نکلوا کر ڈیپازٹ کرائے گا۔ جو بجٹ تقریر کی گئی ہے اور اقدامات لیے جارہے ہیں اس سے بینکر وزیرخزانہ حکومت کا بینک تو بھر دے گا لیکن غربت مہنگائی اور بیروزگاری بڑھے گی۔ مڈل کلاس مزید نچوڑی جائے گی۔ غریب مزید غریب ہوگا۔ سفید پوش خاندانوں کے لیے اپنی عزت بچانا مزید مشکل ہوگا۔ کوئی غریب امیر بچ نہیں گیا جسے حکومت پاکستان کے بینکر نے ٹیکس نہ کیا ہو۔ حکومت اپنی شاہ خرچیاں کم نہیں کرے گی۔ بڑی بڑی کابینہ اور ان کے بڑے اخراجات جاری رہیں گے۔ منتخب نمائندے قربانی نہیں دیں گے بلکہ ہر غریب سے ٹیکس لے کر ان کے اخراجات پورے کریں گے۔ سیلز ٹیکس پر چھوٹ ختم کر کے محترم وزیرخزانہ نے مہنگائی کے جن کو پاکستان پر پوری وحشت، دہشت اور اعتماد سے unleashکر دیا ہے۔ اب جن جانے اور عوام جانے۔ شہباز شریف حکومت جن اور عوام کے اس دنگل میں ’’ دنگل‘‘ کے ساتھ ہے۔ بینکر کا کام صرف لوگوں کی جیبوں سے نکالنا، اکٹھے کرنا اور انہیں گننا ہے اور اس کام میں محترم اورنگزیب صاحب بڑی آسانی سے دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ وزیرِ خزانہ نے بجٹ تقریر میں غربت سے نمٹنے کی کوئی بات نہیں کی، طاقت ور افراد کی فہرست ظاہر نہیں کی جنہیں ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے اور وہ مقدس گائے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت نے محدود مالیاتی اسپیس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف سے معذرت کی ہے، حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبے کو ریلیف فراہم کرنے میں بھی بے بسی ظاہر کی۔ بجٹ دستاویزات میں گروتھ اور معاشی استحکام پر زور دیا گیا ہے، وفاقی حکومت محنت کش طبقے کی بجائے حکمراں اشرافیہ کو تحفظ دے رہی ہے، پی آئی اے اور ایئر پورٹ جیسے اسٹریٹیجک اثاثوں کی نج کاری غیر آئینی ہے، مشترکہ مفادات کونسل سے اس نج کاری کی منظوری نہیں لی گئی۔ وفاقی حکومت کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ اسٹریٹجک اثاثوں کے تصور کو تسلیم نہیں کرتی، بجٹ دہائی پرانے این ایف سی یوارڈ پر بنایا گیا ہے، صوبوں کو آمدن میں ان کے حصے سے محروم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے جس میں محنت کش طبقوں کو محروم کیا گیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن ارکان نے ڈیسک پر بجٹ دستاویز مار کر احتجاج کیا ہے۔ سینیٹر زرقاء سہروری نے سینیٹ میں بجٹ اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ گریڈ 1سے 16تک پر ٹیکس لگایا گیا ہے ، لیکن کسی ایم این اے، کابینہ ارکان پر تو ٹیکس نہیں لگایا گیا، اس ملک میں گدھوں کا تماشہ لگا ہوا ہے۔ ’’ ہم اپ لوگوں کا گریبان پکڑیں گے، کس قسم کا ایوان ہے، منسٹر یہاں آتے نہیں، ٹیکس غریب پر لگا رہے ہیں، فائدے اشرافیہ کو مل رہے ہیں۔ یہ پی ایس ڈی پی کا کیا ڈرامہ ہے؟ ایس آئی ایف سی کیوں ناکام ہے؟ ملک میں ون ونڈو آپریشن نہیں، حکومت اخراجات کم کرے، حکومت اپوزیشن کو سننے کا حوصلہ کرے، اسحاق ڈار کے پاس کیا جواز ہے کہ انہوں نے 3عہدے لے رکھے ہیں۔ آپ بلیک اکانومی اور اسمگلنگ کو کیوں ختم نہیں کرتے؟ آپ ایران سے کیوں تیل نہیں خرید رہے، آپ پابندیوں سے ڈرتے ہیں‘‘ ۔ زرقا سہروردی کی مقررہ مہلت سے زیادہ تقریر پر چیئرمین سینیٹ نے ان کا مائیک بند کر دیا، جس پر زرقہ سہروردی نے احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک اور تبصرہ تبصرہ کر رہا ہے کہ ’’ بجٹ دیکھنے بعد لگ رہا ہے بجٹ میں عام عوام کے لیے صحت کیلئے ’ ھوالشافی‘ تعلیم کیلئے ’ رب زدنی علما‘ اور خوراک کیلئے ’ واللّٰہ خیر الرازقین ‘ کے وظیفے مختص کیے گئے ہیں۔ کیونکہ 52%بجٹ تو صرف اس ’ قرض اور سود‘ کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔ جس سے اشرافیہ عیاشیاں کرتی ہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button