Editorial

وزیراعظم اور چینی صدر کی ملاقات

پاکستان اور چین دوستی کے گہرے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور یہ تعلقات 7عشروں سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ دُنیا بھر میں اس دوستی کی مثالیں دی جاتی ہیں، اسے سمندر سے بھی گہری اور ہمالیہ سے بھی بلند قرار دیا جاتا ہے۔ چین نے پچھلے دو ڈھائی عشروں میں اپنی ترقی سے دُنیا کو حیران کر ڈالا ہے۔ یہ حقیقت نہیں تو اور کیا ہے کہ امریکا جس وقت افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی جنگ میں مصروف کار تھا، عین اُس دوران چین عالمی تضادات سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی معیشت کو بہتر کررہا تھا اور آہستہ آہستہ وہ دنیا کی کنزیومر مارکیٹ میں اپنے قدم جما رہا تھا۔ معاشی اعتبار سے 2024کا چین، سال 2000کے چین سے بہت آگے جا چکا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سیاسی اعتبار سے سال 2000 کا امریکا2024سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1990میں ہمیں جس یونی پولر ورلڈ کا سامنا تھا۔ سال 2010کے بعد ہماری دنیا یونی پولر ورلڈ سے نکل کر ملٹی پولر ورلڈ کی طرف سرکتی دکھائی دیتی ہے۔ مستقبل کی ملٹی پولر ورلڈ میں ایشیائی ممالک خصوصی اہمیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ چین نے بہت تیزی سے ترقی کی، لیکن وہ اپنے دوست کو کسی بھی لمحے نہیں بھولا۔ جب بھی کوئی مشکل وقت پڑا، پاکستان کے ساتھ کھڑا دِکھائی دیا، پاکستان نے بھی چین کے ساتھ دوستی کا پورا پورا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چین نے پاکستان میں عظیم سرمایہ کاری کرکے اسے بھی ترقی اور خوش حالی سے ہمکنار کرنے کے لیے اقدامات یقینی بنائے۔ گیم چینجر منصوبے سی پیک کی شروعات کی، جس میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سی پیک ہی پر کیا موقوف چین پاکستان کی ترقی کے لیے کئی منصوبوں میں مصروفِ عمل ہے اور چینی ماہرین یہاں پوری تندہی سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ دشمنوں کو یہ امر گوارا نہیں، اس لیے وہ چینی ہنرمندوں کی جان کے درپے رہتے ہیں، ماضی میں اس حوالے سے کچھ مذموم واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز چینی باشندوں کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھانہیں رکھتیں۔ پاکستان کی معیشت پچھلے 6 سال سے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے تین ماہ قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کی بحالی کا عزم کیا اور اس کے لیے تندہی سے مصروفِ عمل دِکھائی دی، اس سے قبل پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دوران جب حکومتی سربراہی شہباز شریف کے ہاتھ میں تھی، تب بھی معیشت کی بحالی کے لیے راست کوششیں کی گئیں، دوست ممالک کی جانب سے عظیم سرمایہ کاری کے لیے کوششیں کی گئیں، نگراں حکومت کے دوران بھی یہ کاوشیں جاری رہیں، جن کے دوررس نتائج اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب، چین، یو اے ای، قطر، کویت اور دیگر ممالک کی جانب سے عظیم سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے، جس سے ناصرف معیشت کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی بلکہ عوام ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے بھی بہرہ مند ہوں گے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف پچھلے مہینوں سے سرمایہ کاری پاکستان لانے کے لیے سعودی عرب، یو اے ای ملکوں کے دورے کرچکے ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف 4/5 روز قبل چین کے اہم دورے پر گئے تھے۔ یہ دورہ اُن کے لیے ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور اس کے دوران چینی حکومت اور وہاں کی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں عظیم سرمایہ کاری کے حوالے سے معاہدات طے پائی، یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور چینی صدر شی جن پنگ نے دونوں ممالک کے درمیان موجود پائیدار شراکت داری کو مزید مستحکم بنانے، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے سیاسی، سیکیورٹی، اقتصادی، تجارتی اور عوام سے عوام کے تبادلے سمیت دیگر مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے تاریخی گریٹ ہال آف دی پیپل میں چینی صدر شی جن پنگ سے طویل اور تفصیلی ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں کے ہمراہ وفاقی وزراء اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے چین میں ان کے اور ان کے وفد کے پرتپاک استقبال پر صدر شی جن پنگ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے2015 میں صدر شی جن پنگ کے پاکستان کے تاریخی دورے کو یاد کیا، جس کے دوران چین، پاکستان اقتصادی راہداری کو باضابطہ طور پر فعال کیا گیا تھا اور دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کیا گیا تھا۔ دونوں رہنمائوں نے دونوں ممالک کے درمیان موجود پائیدار شراکت داری کی توثیق کی اور اسے مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا۔ دونوں رہنمائوں نے سیاسی، سیکیورٹی، اقتصادی، تجارتی اور عوام سے عوام کے تبادلے سمیت دیگر مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے علاقائی اور عالمی امور بشمول افغانستان، فلسطین اور جنوبی ایشیا بشمول بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے بنیادی دلچسپی کے امور پر اپنی دیرینہ حمایت کا اعادہ کیا۔ صدر شی جن پنگ کے ویژنری بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو (جی ڈی آئی) کو سراہتے ہوئے وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ بی آر آئی کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) نے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل پر اتفاق رائے کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنمائوں نے سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق رائے کیا۔ وزیراعظم نے سی پیک کے تحت دونوں ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے پاکستان میں چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے پاکستان کی عزم اور مکمل حمایت پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے صدر شی جن پنگ کو اقتصادی اصلاحات اور پائیدار ترقی، صنعتی ترقی، زرعی جدید کاری اور علاقائی روابط کے لیے پاکستان کی پالیسیوں اور پاکستان کی ترقی میں سی پیک کے اہم کردار کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کا عوام پر مرکوز، سماجی و اقتصادی ترقی کا ایجنڈا چین کے ’’ مشترکہ خوشحالی’’ کے تصور پر مبنی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے وزیر اعظم کے اعزاز میں عشائیے کا بھی اہتمام کیا، جہاں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کا ایک اور دور ہوا۔2024ء میں عہدہ سنبھالنے کے بعد چین کے صدر کے ساتھ وزیراعظم شہباز کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات دو طرفہ دوستی اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کی عکاس تھی۔ دوسری طرف پاکستان اور چین نے ٹرانسپورٹ، بنیادی ڈھانچے، صنعت، توانائی، زراعت، صحت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کی لئے 23مفاہمت یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔وزیراعظم میاں شہباز شریف کا دورہ چین انتہائی کامیاب رہا ہے۔ اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ چین اور دیگر ممالک کی جانب سے کی جانے والی عظیم سرمایہ کاری کے ذریعے عوام کے تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔ سی پیک کی تکمیل سے وطن عزیز کی ترقی کی رفتار بے پناہ بڑھ جائے گی اور پاکستان چند ہی سال میں ترقی اور خوش حالی سے ہمکنار ہوگا۔
حج فلائٹ آپریشن کا آج آخری روز
ذوالحج کا چاند نظر آچکا ہے اور حج میں کچھ ہی روز باقی رہ گئے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے حوالے سے ملک میں خاصا گہما گہمی دِکھائی دیتی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں صاحب استطاعت لوگ قربانی کے لیے جانور لا رہے ہیں۔ دوسری جانب خوش نصیب لوگ حج کے لیے عازم سفر بھی ہوتے نظر آتے ہیں۔ حج بیت اللہ بڑی سعادت کی بات ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس سعادت کو پاتے ہیں۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، حج کرنا ہرعاقل و بالغ مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ پاکستان سے ہزاروں مسلمان اس بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کریں گے۔ اس حوالے سے پچھلے ماہ سے حج فلائٹ آپریشن جاری ہے، ملک کے اہم شہروں سے لوگ اپنے پیاروں کو حج کے لیے وداع کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ آج پاکستان سے حج فلائٹ آپریشن کا آخری روز ہے اور اب تک ساڑھے 62ہزار سے زائد عازمین حجاز مقدس پہنچ چکے ہیں۔ ترجمان برائے وزارت مذہبی امور نے کہا ہے کہ 6جون تک 236پروازوں سے 62ہزار 5سو عازمین مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں۔ ترجمان مذہبی امور کے مطابق حج فلائٹ آپریشن 9جون تک جاری رہے گا، مکہ کے 9انتظامی سیکٹرز میں رہائش، خوراک، ٹرانسپورٹ کا نظام مصروفِ عمل ہے۔ ترجمان مذہبی امور کے مطابق مکہ اور مدینہ میں ایک ایک مرکزی اسپتال اور درجن بھر ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں۔حج انتظامات کے حوالے سے حکومت پاکستان کی کاوشیں ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہیں۔ اللہ کے مہمانوں کی سہولتوں کے لیے کافی عرصہ پہلے سے حکومت اور وزارت مذہبی امور مصروفِ عمل ہے، خوش قسمتی سے اس حوالے سے معاملات احسن انداز میں بڑھ رہے ہیں، ابھی تک بدنظمی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے، یہ حکومت کے احسن اقدامات کا مظہر ہے، اس پر اُس کی توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ حکومت کو آئندہ بھی حج انتظامات کے لیے اسی طرح کاوشیں جاری رکھنے اور ان میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے، جہاں تک بات سعودی انتظامیہ کی ہے تو وہ تو ہر سال ہی اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی میزبانی کے لیے تمام تر اقدامات یقینی بناتی ہے۔ اُن کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہمہ تن مصروفِ عمل رہتی ہے۔ اُن کی آسانیوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے۔ ( آمین)

جواب دیں

Back to top button