پاکستان پھر سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب

پاکستان کے قیام کو 77سال ہونے والے ہیں۔ وطن عزیز ابتدا سے ہی امن پسند ملک رہا ہے اور کبھی بھی کسی پر جنگ مسلط نہیں کی، اس کی جانب سے سبھی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کو بڑھاوا دینے کی کوششیں دُنیا کے سامنے ہیں۔ چند ایک ملکوں کے سوا پاکستان کے تمام ہی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں، جن کے ساتھ مثالی تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان نے بہترین کردار ادا کیا ہے اور اس حوالے سے وطن عزیز کی کاوشوں کو دُنیا کے لگ بھگ تمام ممالک سراہتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رکنیت سے متعلق تاریخ کو کھنگالا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اپنے قیام کے محض ڈیڑھ ماہ بعد ہی پاکستان 30ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ کا رُکن بن گیا تھا۔ پاکستان کو ممبر بنانے کی تجویز برطانیہ نے پیش کی، جس کی تائید بھارت، ایران، ترکی، مصر، عراق، لبنان، برازیل اور امریکا نے کی تھی۔ قبل ازیں دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سابقہ عالمی تنظیم ’’ لیگ آف نیشنز‘‘ بُری طرح ناکام ہوچکی تھی تو ایک نئی عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی، جو دنیا کو جنگ و جدل سے محفوظ رکھ سکے۔ اسی تناظر میں 25اپریل 1945ء کو سان فرانسسکو میں 50ممالک کے ایک اجلاس میں اقوام متحدہ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی امن و امان اور بھائی چارے کا فروغ، عالمی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی تعاون، نیز بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور مساوی ترقی کے امکانات پیدا کرنا تھا۔ 24 اکتوبر 1945 کو یہ بین الاقوامی ادارہ وجود میں آیا تھا۔ اس کی 6 سرکاری زبانیں ہیں، جن میں انگریزی، عربی، فرانسیسی، ہسپانوی، چینی اور روسی شامل۔ اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک، امریکا میں واقع ہے۔ اقوام متحدہ کے اجزائے ترکیبی 6 ہیں۔ پہلا اور بنیادی جزو جنرل اسمبلی ہے، جس کے تمام ممالک رکن ہوتے ہیں، اس کا مقصد بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں سفارشات مرتب کرنا ہوتا ہے، جس کا اجلاس ہر سال ستمبر میں ہوتا ہے۔ تمام ممالک کے وزرائے اعظم اس میں شرکت کرتے ہیں۔ دوسرا جزو سلامتی کونسل ہے، جس کی ذمے داری بین الاقوامی اصولوں کے مطابق دنیا بھر میں امن قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے پانچ مستقل رکن ہوتے ہیں جنہیں ویٹو پاور حاصل ہوتی ہے اور دس منتخب شدہ ارکان ہوتے ہیں جو دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ تیسرا جزو اقتصادی اور سماجی کونسل ہے، جس کا مقصد مختلف ریاستوں میں اقتصادی اور معاشرتی معاملات میں تعاون فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس کونسل کے 54ارکان ہوتے ہیں۔ چوتھا جزو بین الاقوامی عدالت انصاف ہے، جس کا مقصد ریاستوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنا اور قانونی رائے پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ عدالت 15جج صاحبان پر مشتمل ہوتی ہے۔ پانچواں جزو سیکریٹریٹ ہے، جس کا مقصد انتظامی حوالے تمام اداروں کو اپنا تعاون فراہم کرنا ہوتا ہے۔ چھٹا جزو سرپرستی یا ٹرسٹی شپ کونسل ہے جو فی الحال غیر فعال ہے، جس کا مقصد نوآبادکاری کے لیے انتظامات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دُنیا کے بہت سے خطوں کے امن و امان میں اقوام متحدہ کا کلیدی کردار رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا کے بعض حصّوں میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود امن و امان کی دیوی روٹھی دِکھائی دیتی ہے، ان خطوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے کردار پر کڑی تنقید بھی کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آٹھویں بار غیر مستقل رکن منتخب ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے 2026-2025کی مدت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کا غیر مستقل رکن بن گیا۔ پاکستان کے غیر مستقل رکن بننے کے لیے ووٹنگ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں ہوئی۔ پاکستان، ایشیا پیسفک گروپ میں غیر مستقل رکن کا امیدوار تھا، جس کے لیے 182ممالک نے اس کی حمایت کی، پاکستان 2025سے 2026کے لیے رکن منتخب ہوا ہے۔ پاکستان سے پہلے ایشیا پیسفک گروپ کی نشست جاپان کے پاس تھی۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان کو 2026۔2025کی مدت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب کر لیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو آج نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انتخابات میں زبردست حمایت حاصل ہوئی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کے سال 26۔2025کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کے طور پر انتخاب پر مسرت کا اظہار اور قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ یقیناً یہ ایک قابل فخر لمحہ ہے، 182ووٹ لے کر اقوام متحدہ کا رکن منتخب ہونا امن اور سلامتی کے لیے ہماری قوم کے عزم کا ثبوت ہے۔پاکستان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن کی حیثیت سے انتخاب خوش کُن امر ہے اور اس پر پوری قوم خوشی سے نہال دِکھائی دیتی ہے۔ یہ یقیناً ایک اعزاز کی بات ہے۔ قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کا سب سے زیادہ آٹھ بار غیر مستقل رکن بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے۔ خوش گوار حیرت تو اس امر پر ہے بھارت نے بھی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ پاکستان اس سے قبل آخری بار سلامتی کونسل کا غیر مستقل رُکن 2012میں منتخب ہوا تھا۔ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے پاکستان فعال کردار ادا کرے گا۔
لیپ ٹاپ فار آل اسکیم، خوش آئند اعلان
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا، ’’ نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے۔۔۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔ وطن عزیز 60فیصد سے زائد نوجوان آبادی پر مشتمل ملک ہے، جو سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ ناصرف ستاروں پر کمند ڈالنے کی اہلیت رکھتے، بلکہ ملک اور قوم کو مشکلات کے بھنور سے نکال کر ترقی اور خوش حالی سے ہمکنار بھی کرسکتے ہیں۔ وہی حکومتیں عوام دوست اور قوم کی نبض شناس کہلاتی ہیں، جو رعایا کا درد اپنے دل میں محسوس کرتی اور اُن کے مصائب اور مشکلات میں کمی لانے میں جتی رہتی ہیں۔ وہی حکومتیں تعریف کی مستحق ٹھہرتی ہیں جو علم کے فروغ اور اس شعبے میں انقلاب بپا کرنے کی مشن پر جُت جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ وہ ملک میں آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب کے خواہاں ہیں اور اس حوالے سے راست اقدامات یقینی بنارہے ہیں۔ آج کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اینڈرائیڈ فون ہر فرد کی ضرورت بن گئے ہیں اور دُنیا کا سارا نظام انہی کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ ای کامرس کا شعبہ حیرت انگیز ترقی کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں نت نئے رجحانات سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے نوجوانوں کو بھی ان تمام چیزوں سے روشناس کرنے اور ان میں مہارت کی منازل پر پہنچانے کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت کو اس کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس کے لیے کوشاں بھی ہے۔ ن لیگ حکومت ماضی میں اہل طلبہ و طالبات میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرتی رہی ہے اور اس سے بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں نے استفادہ بھی کیا تھا۔ اب اس حوالے سے آئندہ برس پھر ایک بڑی اسکیم لانے کا اعلان سامنے آیا ہے۔وفاقی حکومت نے آئندہ سال لیپ ٹاپ فار آل اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کردیا، اس حوالے سے چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال عبوری حکومت تھی، اس لیے بچوں کو لیپ ٹاپ نہیں دئیے تھے، جب ہماری حکومت آئی تو بجٹ آنے میں ٹائم بہت کم تھا، آئی ایم ایف کی شرائط بھی ہیں، ان کو لے کر بھی چلنا ہے، کوشش ہے کہ اگلے دو سے تین دن میں فیصلہ ہوجائے اور لیپ ٹاپ لازمی دئیے جائیں، اگلے سال لیپ ٹاپ فار آل کی ایک اسکیم لے کر آئیں گے۔ انٹرسٹ فری بینکوں سے بچوں کو لیپ ٹاپ مل سکیں گے، بجٹ میں ہم نے تعلیم کے فنڈز کو بڑھایا۔ لیپ ٹاپ فار آل اسکیم کا اعلان خوش آئند ہے۔ ان شاء اللہ اس اسکیم سے بہت بڑی تعداد میں نوجوان مستفید ہوں گے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں گے۔





