Column

حق بہ حق دار رسید

تحریر : صفدر علی حیدر ی
آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک صاحب ( احمد عدنان طارق ، جن کا تعلق محکمہ پولیس سے رہا ہے ) فیس بک پر ایک پوسٹ لگاتے ہیں جس میں وہ خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں یو بی ایل ایوارڈ ملا ہے۔ اب مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر اچانک ایک انتہائی معتبر علمی و ادبی شخصیت، جن کا دل سے احترام کرتا ہوں اور جن کے ادب اطفال پر کام کو سراہتا ہوں ( نذیر انبالوی صاحب) ایک سوال کرتی ہے کہ کیا یہ اعزاز طبع زاد تحریر کے لیے نہیں تھا۔ بس یہیں سے معاملہ اور نیا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ ان صاحب کے جواب میں ایوارڈ حاصل کرنے والے بجائے معقول جواب دینے کے طنزیہ جملے لکھ ڈالتے ہیں۔ اتفاقاً میری نظر اس پوسٹ پر پڑتی ہے تو میں بھی سوال کر ڈالتا۔ اب موصوف مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں پیسوں کے لیے سب کچھ کر سکتا ہوں ( حالاں کہ یہ جملہ خود ان پر فٹ بیٹھتا ہے ) پھر فرماتے ہیں کہ تم وہی نہیں ہو جو میرے گھر سفارش کے لیے آئے تھے ( میں نے ان کا گھر دیکھا ہے نہ کبھی ان سے ملا ہوں ، سوائے ایک سرسری سلام دعا کہ جو ملتان میں ایک ادبی تقریب کے دوران ہوئی ) پھر فرماتے ہیں تم اس قابل نہیں کہ تمہیں جواب دیا جائے ( جواب ہوتا تو دیا بھی جاتا) پھر انہوں نے مجھے حاسد ثابت کیا کہ میں مشہور ہونے کے لیے یہ سب کر رہا ہوں۔ مجھے سچ میں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ ایک ایسا آدمی جو خود کو ادیب کہتا ہے اس کا ایسا عامیانہ اور غیر اخلاقی رویہ واقعی ناقابل یقین تھا۔ میرا دکھ اور بڑھا جب میں نے دیکھا کہ وہ آدمی ہر اس آدمی پر چڑھ دوڑا جس نے ان پر ایوارڈ کے حوالے سے اعتراض کیا۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ آدمی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح اس پوسٹ سے اپنے کمنٹس سمیت غائب ہو گیا ( نکل بھاگا ) اب اعجاز احمد نواب اس معاملے میں کود پڑے اور انکشاف کیا کہ وہ ان کے کہنے پر وہاں سے غائب ہوئے ہیں ۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو ایک آدمی نے شرم و لحاظ کا مظاہرہ تو کیا اور دیر سے ہی سہی انہیں اپنی غلطی کا احساس تو ہوا مگر ۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ آگلے انہوں نے پچ کے دونوں طرف کھیلنا شروع کر دیا۔ خود بھی ہوسٹیں لگائیں اور اپنے حواریوں کو بھی سامنے لائے تا کہ وہ حق سچ کا ساتھ دینے والوں پر تنقید کے نشتر چلائیں۔ ان کا یہ عمل برا تو ضرور تھا، ساتھ ہی بچکانہ بھی تھا’’ مجھے بچائو ادب اطفال کا ایک مافیا میرے پیچھے پڑ گیا ہے ‘‘۔
کیا تم وہی نہیں ہو جس نے گزشتہ سال مجھ سے معافی مانگی تھی کہ تم آئندہ مجھ پر تنقید نہیں کرو گے ’’ ایک ایسا مدیر بھی ہے جو گالیاں کھا کر بھی مدیر کی کرسی پر بیٹھا ہے ‘‘۔
تم وہی نہیں ہو جسے کہانیاں سرقہ کرنے کے جرم میں ایک رسالے کی ادارت سے ہٹایا گیا تھا۔ اس پر مجھے وہ خط یاد آیا جو نذیر انبالوی صاحب نے ادارت چھوڑتے وقت ادارے کو لکھا تھا ۔ میں نے وہ خود اس پوسٹ کے کمنٹس سیکشن میں لگا دیا۔
سو ان صاحب سے جو بن پڑا اس کے کیا اور کرایا۔ ان کے خیر خواہ میدان میں اترے اور حق نمک ادا کرتے ہوئے حقائق کی خوب مٹی پلید کی۔ الجھتے رہے ، الزامات لگاتے رہے۔ ایک صاحب جو تین میں تھے تیرہ میں وہ بھی خوب گرجے ، ایوارڈ لوٹنے والے کے حق میں لاہور میں محفل سجانے اور دعوت دینے کی بات کر ڈالی۔ جو یقیناً وہ کبھی نہیں دے پائیں گے ۔ ایک اور صاحب نے اسے علاقائی رنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ معاملات یونہی چل رہے تھے کہ اس دوران برادر یاسر فاروق نے ایک منجھے ہوئے شاعر بھی ہیں ایک پوسٹ لگا کر میدان مار لیا۔ انہوں نے سیدھے سادے انداز میں لکھا کہ جب مقابلہ طبع زاد تحریر پر تھا تو ایک مولف کو ایوارڈ کیسے مل گیا۔ اور وہ بھی اس کتاب پر جو مقبول جہانگیر کی داستان امیر حمزہ کا چربہ کا ہے۔ ان کی اس پوسٹ کے بعد تو پھر یہ ہوا کہ ہر سمت سے توانا آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ آخر یہ ہوا کیسے ؟ اور کیوں کر ہو سکتا ہے ؟۔
بس پھر کیا تھا ایوارڈ لوٹنے والا اور اس کے حوالے الٹے قدموں بھاگ نکلے۔ ایوارڈ لوٹنے والے کے ایک بار پھر اپنی وال سے کئی پوسٹیں ڈیلیٹ کر دیں۔ ہمیں امید تھی کہ وہ اب پھر کبھی اس بارے بات نہیں کرے گا مگر۔۔ اگلے ہی دن اس نے پوسٹ جمائی کہ جب سے ایک مدیر کو نکالا گیا ہے اس کی کوئی بھی تحریر شائع نہیں ہوئی۔ موصوف اس بات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں کہ ان کی سو کے قریب کہانیاں مسلسل تعلیم و تربیت میں چھپتی ہیں اور اب بھی چھپ رہی ہیں۔ گویا نذیر صاحب کا نہ چھپنا اور ان کا چھپنا تعلیم و تربیت کے اعلی معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی دوران ظفر جی کی ایک پرانی پوسٹ نظر سے گزری جس میں انہوں نے تعلیم و تربیت کا نوحہ پڑھا ہے۔ پتہ چلا تعلیم و تربیت کے معیار گرنا ایسے لوگوں کے سبب سے ہے جو ترجمہ شدہ اور چوری شدہ کہانیوں شائع کروا کر کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بات بڑی سیدھی ہے اور مختصر بھی کہ جب یو بی ایل ایوارڈ طبع زاد تحریر پر دیا جانا تھا تو ایک مرتب کردہ ( مرتب در مرتب ) کتاب کو ایوارڈ دے کر قواعد کی خلاف ورزی کیوں کی گئی ۔ ایک نوعمر ادیبہ ( رمشا جاوید ) کا حق کیوں مارا گیا جو میرٹ پر پوری اترتی تھی اور جس کو ایوارڈ دئیے جانے سے نئے لکھنے والوں کی بڑی حوصلہ افزائی ہوتی۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ جیوری میں وہ ادیب شامل ہی نہیں تھی جو ادب اطفال سے منسلک ہوں ۔
یو بی ایل کی اس روش کو سراہا جانا چاہیے کہ اس نے ادب اطفال کو بھی اس قابل جانا کہ اس سے منسلک ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بلکہ ہم تو یہ بھی کہیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ اور ادارے میں آگے آئیں اور ادب اطفال کے فروغ کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
جہاں ہم یو بی ایل انتظامیہ کو سراہتے ہیں وہیں ان سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ ایک کمیٹی بنا کر اس معاملے کا جائزہ لیں اور اگر کوتاہی برتی گئی ہے تو اس کا ازالہ کرتے ہوئے اس کو ایوارڈ سے نوازیں جس کا حق بنتا ہے۔ اگر داستان امیر حمزہ ہی کو ایوارڈ دیا جانا ضروری ہے تو اس کے حق دار مقبول جہانگیر کے وارثین ہیں کہ یہ کتاب سب سے پہلے انہوں نے مرتب کی تھی۔ ان کی صاحب زادی کو عزت و تکریم کے ساتھ ایوارڈ اور کیش پرائز سے نوازیں اور اس بات یقینی بنائیں کہ آئندہ یہ سب نہ ہو۔ ہم ان سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جیوری میں ان افراد کو شامل کریں جن کا ادب اطفال سے براہ راست تعلق ہو
ایک بات اور بھی کہ کتاب بھیجنے والا بھی قصور وار ہے۔ جب وہ اہل نہیں تو کتاب بھیجے کیوں ؟
پہلے ہی ایوارڈز کے حوالے سے لوگ اس کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر انتظامیہ خود اپنے اراکین کو ہی ایوارڈ سے نوازتی دکھائی دیتی ہے۔
ضرورت اس امر کی اور بڑھ گئی ہے کہ ایوارڈز کی شفافیت کا خاص خیال رکھا جائے تاکہ لوگ کہہ سکیں
حق بہ حق دار رسید

جواب دیں

Back to top button