Editorial

قرضوں کے بجائے وسائل پر انحصار کیا جائے

پاکستان کے قیام کو 76سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آزادی کے وقت انتہائی نامساعد حالات تھا، لیکن کفایت شعاری اور سمجھ داری کی بدولت وہ کر دِکھایا گیا کہ دُنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ قیام پاکستان کے وقت سرکاری دفاتر نہیں تھے۔ فنڈز کی شدید قلت تھی۔ سرکاری کاغذوں کو جوڑے رکھنے کے لیے پیپر پن کا استعمال کیا جاتا تھا۔ عوام کی حقیقی خدمت کے جذبے سے سرشار حکمراں اور افسران مصروفِ عمل رہتے تھے۔ ان کی شب و روز محنتوں کا ثمر تھا کہ وطن عزیز کچھ ہی سال میں ایک مستحکم معیشت کے طور پر اُبھرا۔ صنعتوں کو بے پناہ فروغ ملا۔ ہمارے ہُنرمندوں، مزدوروں نے ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے دن رات ایک کر دئیے۔ آزادی کے تین، ساڑھے تین عشروں تک وطن عزیز پر قرضوں کا کوئی بوجھ نہ تھا، عوام خوش حال تھے، بلکہ پاکستان نے اُس دور میں ایسے ممالک کو بھی قرض دیا، جو آج دُنیا کی مضبوط ترین معیشت گردانے جاتے ہیں۔ پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی اور بیرونی اور اندرونی قرضے لینے کی ابتدا ہوئی، ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا، جو اَب تک پوری شدومد سے جاری ہے۔ پاکستان ویسے تو کافی سال سے مشکل دور سے گزر رہا ہے، معیشت کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں، ملک اور قوم کو بے پناہ مسائل لاحق ہیں، لیکن پچھلے 6سال سے اس میں خاصی شدّت محسوس کی جارہی ہے۔ آزادی کے ابتدائی 70برسوں میں اتنے قرض نہیں لیے گئے، جتنے ان 6سال میں لیے گئے ہیں۔ قرضوں کا بار اس حد تک بڑھ چکا کہ یہاں ہر جنم لینے والا نومولود لاکھوں روپے کا مقروض پیدا ہوتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے مقاضی قرضوں میں 4ہزار 622ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ مارچ تک مقامی قرض بڑھ کر 43ہزار 432ارب روپے ہوگیا، ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے 6فیصد بڑھ کر 61ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا، رواں مالی سال کے آغاز پر پاکستان پر مقامی قرضوں کا حجم 38ہزار 809ارب روپے تھا۔ رواں مالی سال بیرونی قرضے 89ارب روپے کم ہوکر 21ہزار 941ارب روپے ہوگئے، حکومت کے ذمے بیرونی واجبات6فیصد بڑھ کر 3ہزار 284ارب روپے پر پہنچ گئے۔ آئی ایم ایف ڈیل سے مقامی و بیرونی قرضوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ قرضوں کا یہ بڑھتا بوجھ ہر لحاظ سے ہولناک ہے۔ ماضی سے اب تک قرض لے کر نظام مملکت چلانے کی روش اختیار کی گئی ہے، جس کا شاخسانہ ملک و قوم بھگت رہے ہیں اور اگر ان قرضوں کے بوجھ سے مستقل نجات کے لیے اقدامات نہ کیے گئے اور خودانحصاری اور کفایت شعاری کی پالیسی پر گامزن نہیں ہوا گیا تو آگے چل کر حالات مزید سنگین شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ مانا کہ 2018کے وسط سے اگلے چار سال ملک و قوم کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہ تھے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستانی روپے کو پستیوں کی گہرائیوں میں دھکیلا گیا۔ اس کا انتہائی منفی اثر غریبوں پر پڑا کہ ہر شے کی قیمت تین، چار گنا بڑھ گئی۔ مہنگائی کا بدترین طوفان قوم پر مسلط کیا گیا۔ جو گرانی سن 2035۔40کے دور میں آتی، وہ 2018سے 2022کے دوران غریبوں پر نازل کردی گئی، آمدن وہی رہی، لیکن اخراجات بے پناہ بڑھ گئے۔ روپے کی بدترین بے وقعتی سے ملک و قوم پر قرضوں کا بار بھی تین چار گنا بڑھ گیا۔ کاروبار دشمن اقدامات سے ترقی اور خوش حالی کے پہیے کو جام کیا گیا، صنعتوں کو گزند پہنچائی گئی، سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار انتہائی سست کردی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے بڑے ادارے اپنے آپریشنز کو سمیٹنے پر مجبور ہوئے، لاکھوں لوگوں کو نوکریوں سے بے دخل کیا گیا، اس کے علاوہ لوگوں کے برسہا برس کے جمے جمائے چھوٹے کاروبار بھی تباہ ہوگئے۔ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ ترقی کا سفر رُک کر رہ گیا۔ یہ ملکی معیشت کا نازک ترین دور تھا جب اُسے تاریخی ضرب لگائی گئی۔ ملکی مشکلات کی کھائی میں دھکیلنے کے لیے جہاں 2018سے 2022تک مذموم کوششیں ابھی ملک و قوم کو لاحق بنیادی مسائل کی جڑ ہیں، وہیں کئی عشروں سے اہم قومی اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی بھی مسائل کو لامتناہی حدوں تک پہنچانے کی اہم وجہ قرار پاتی ہے۔ قرضے لے کر امور حکومت چلانے کی روش ترک کیے بغیر بہتری کے آثار ہرگز دِکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان اللہ رب العزت کا عظیم تحفہ ہے اور بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ ملک کے طول و عرض کی زمینوں میں قیمتی دھاتوں کے خزینے پوشیدہ ہیں۔ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کی دریافت آئے روز ہوتی رہتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرض لے کر نظام مملکت چلانے کی روش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کرنے کا عزم مصمم کیا جائے اور اس پر سختی سے کاربند ہوا جائے۔ اس کے بجائے وسائل پر انحصار کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ ملک قدرت کے حسین نظاروں سے مالا مال ہے۔ سیاحوں کے لیے خاصی دلچسپی اور کشش رکھتا ہے۔ سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ قدرتی وسائل کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے۔ خوش کُن امر یہ ہی کہ حکومت زراعت کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہی ہے، اس سے زرعی پیداوار کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے۔ اسی طرح آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے احسن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اگر وسائل پر انحصار کی پالیسی پر گامزن رہا گیا تو کچھ ہی سال میں قرضوں کا بار بھی اُتر جائے گا اور وسائل کے درست استعمال کی بدولت ملک و قوم بھی ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔
’’ سے نوٹو پلاسٹک’’ مہم، احسن فیصلہ
وطن عزیز میں پولیتھین بیگز کے خلاف عرصۂ دراز سے حکومتی سطح پر اقدامات کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں، لیکن کچھ عرصے کی پابندی اور سختی کے بعد پھر سے ان بیگز کا استعمال عام دِکھائی دیتا ہے، یہ امر ماحولیاتی آلودگی کے عفریت کو بڑھاوا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ دُنیا بھر میں پلاسٹک بیگز کے استعمال کو چھوڑ کر پٹ سن یا کاغذی شاپرز کے استعمال پر اکتفا کیا جارہا ہے جب کہ وطن عزیز میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ پورے ملک میں پولیتھین بیگز کا اس شدّت سے استعمال دِکھائی دیتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اس سے ناصرف ماحول کو نقصان پہنچتا بلکہ آبی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ آبی حیات کے لیے پولیتھین بیگز ازحد نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود پولیتھین بیگز کا کاروبار یہاں دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرتا دِکھائی دیتا ہے اور اس کاروبار کے باعث لوگ بیش بہا دولت کماتے نظر آتے ہیں۔ پنجاب میں جب سے وزارت اعلیٰ کی ذمے داریاں مریم نواز شریف نے سنبھالی ہیں، تب سے صورت حال خاصی بہتر ہوتی نظر آرہی ہے، وہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے خاصی سرگرم دِکھائی دیتی ہیں، عوامی مفاد میں اُن کی جانب سے چند بڑے اقدامات کیے ہیں، جو ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہیں۔ اب پنجاب میں پلاسٹک بیگز کے خلاف بڑی مہم کا آغاز ہونے جارہا ہے، جو یقیناً پلاسٹک بیگز کے استعمال کو مکمل ترک کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر پلاسٹک سے پیدا ہونے والی مہلک بیماریوں سے تحفظ کے لیے 5جون سے ’’سے نوٹو پلاسٹک’’ مہم کا آغاز کررہے ہیں، مہم کے تحت غیر قانونی پلاسٹک بیگز کی تیاری، پروڈکشن، ترسیل اور خرید و فروخت پر پابندی کے لیے میکانزم پر سختی سے عمل درآمد کے لیے تیاری مکمل کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کا استعمال کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کا موجب ہے، پلاسٹک کا استعمال ماحولیاتی آلودگی کو بڑھارہا ہے، 5جون سے پلاسٹک کی غیر قانونی مصنوعات بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے گا، اس سے قبل بارہا نوٹس ارسال کیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دی گئی ڈیڈلائن کے بعد ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور دیگر فوڈ پوائنٹس پر گاہکوں کو پلاسٹک بیگ میں کھانا دینے پر سخت پابندی ہوگی، خلاف ورزی کرنے والے ہوٹلوں کے خلاف مکمل کریک ڈائون ہوگا، مالکان کے خلاف قانونی کارروائی اور بھاری جرمانے ہوں گے۔ قانون کے مطابق 75مائیکرون سے کم حجم کے پولیتھین بیگز کے استعمال اور سنگل یوز پلاسٹک کے برتنوں پر مکمل پابندی ہے، پلاسٹک کے عدم استعمال پر عوام کے لیے ’’پلاسٹک موت ہے’’ کے موضوع پر آگہی مہم کا آغاز کیا جائے۔ پبلک سروسز میسجز، سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کیے جائیں گے، شاپنگ مالز، دفاتر، بس اسٹینڈز، پارکس، ٹرانسپورٹ، میٹرو بسوں اور عوامی جگہوں پر پلاسٹک کی پابندی کے حوالے سے تحریری پیغامات چسپاں کیے جائیں گے۔ پنجاب حکومت کی ’’سے نو ٹو پلاسٹک’’ مہم ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پلاسٹک بیگز کے مکمل ترک کرنے تک اس مہم کو پوری شدومد سے جاری رکھا جائے۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ہاں ایسی مہمات کا آغاز کرنا چاہیے اور پولیتھین بیگز کے استعمال کے مکمل خاتمے کو ہر صورت یقینی بنانا چاہیے۔ اس حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہ رکھا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button