پاکستان

جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم کا مقدمہ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا لارجر بینچ آج سماعت کرے گا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس آج یعنی تین جون کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں لارجر بینچ آج سماعت کرے گا۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان بھی بینچ میں شامل ہوں گے۔ اس مقدمے میں عدالت نے ایف آئی اے، پی ٹی اے اور آئی بی سے رپورٹس طلب کر رکھی ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی سمیت لارجر بینچ کے تمام ججز اور جسٹس بابر ستار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججوں میں سے ہیں جنھوں نے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کی تحریری شکایت بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کر رکھی ہے۔

رجسٹرار آفس نے پہلے چھ جون اب کل تین جون کے لیے کیس مقرر کر دیا ہے۔

اس سے قبل 23 مئی کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کیس کی کازلسٹ جسٹس محسن اختر کیانی کی رخصت کے باعث منسوخ کردی گئی تھی۔

14 مئی کو سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ اس کیس میں ہمیں انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) سمیت تمام خفیہ اداروں کے کردار کو دیکھنا ہے۔

6 مئی کو جسٹس بابر ستار نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انھیں نشانہ بنانے والی سوشل میڈیا مہم کے بارے میں بتایا تھا۔ خط میں انھوں نے انکشاف کیا کہ آڈیو لیکس کیس میں مجھے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔

28 اپریل کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعلامیہ جاری کیا تھا۔

اعلامیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت دی تھی۔

اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ لا کالج اور ہارورڈ لا کالج سے تعلیم حاصل کی، انھوں نے امریکا میں پریکٹس کی اور سنہ 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس اس وقت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔

جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا۔ جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستان میں سکونت اختیار کی۔

اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے۔ مزید کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں۔ جسٹس بابر ستار، اُن کی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button