Editorial

بجلی کی قیمت میں پھر اضافہ

دُنیا بھر کے ممالک میں بجلی انتہائی سستی ہے اور وہاں کے عوام کو اس سہولت کے بدلے اپنی ماہانہ آمدن کا انتہائی معمولی حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے، پاکستان جس خطے میں واقع ہے، اس خطے کے دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بھارت، بنگلادیش، چین، سری لنکا، مالدیپ وغیرہ میں بجلی مناسب قیمت پر وہاں کے عوام کو میسر ہوتی ہے۔ پاکستان میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے اور یہاں کے عوام کو اپنی آمدن کا بہت بڑا حصّہ بجلی کی سہولت کے بدلے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر طرّہ کہ انہیں بجلی کی نعمت بلاتعطل دستیاب بھی نہیں ہوتی کہ اعلانیہ اور غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ کی ریت یہاں خاصی مضبوط ہے۔ یہاں تو چھوٹے چھوٹے دو، دو کمروں کے گھروں میں ماہانہ لاکھوں روپے کے بجلی بل ارسال کرنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ ان بلوں میں بھی بے تحاشا ٹیکسوں کی بھرمار الگ ہوتی ہے، جس کی ادائیگی کرتے کرتے غریبوں کا بھرکس نکل جاتا ہے۔ بعض اوقات غریب عوام کو بجلی بل ادائیگی کے لیے اپنی جمع پونجی تک تج دینی پڑتی ہے۔ پوری دُنیا میں سستی بجلی کے حصول پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور لگ بھگ تمام ممالک بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع کو چھوڑ چکے ہیں اور سستے ذرائع ( ہوا، سورج اور پانی) سے بجلی کی پیداوار یقینی بنارہے ہیں۔ افسوس یہاں بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع پر اب تک اکتفا کیا جارہا ہے، ان سے نجات کے ضمن میں کوششوں کا فقدان دِکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کی مشکلات بھی بڑھتی ہیں اور غریب عوام کا تو ویسے ہی خانہ خراب رہتا ہے۔ یہ ملک اور قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے ہاں بجلی کا نظام دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور نہ اس جانب سنجیدگی سے کوئی پیش رفت دِکھائی دیتی ہے۔ وہی قدیم بجلی کا ترسیلی نظام چل رہا ہے۔ کھمبوں اور گنجلک تاروں کی بھرمار ملک کے تمام شہروں میں دِکھائی دیتی ہے، سوائے وفاقی دارالحکومت کے، جو جدید شہر ہونے کے ساتھ بجلی کے جدید ترسیلی نظام ( زمین دوز) کا حامل ہے، یہاں زمین کھود کر بجلی کے تاروں کا جال بچھایا گیا ہے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں موجود بجلی کا پُرانا اور بوسیدہ نظام موسمِ برسات میں خاصا خطرناک ثابت ہوکر ہولناک کرنٹ کے ذریعے کئی زندگیوں کو نگل جاتا ہے۔ اُس پر طرّہ کے مہنگے ذرائع سے مسلسل بجلی کی پیداوار سے سرکلر ڈیٹ ہولناک حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ غریب عوام کی حالتِ زار بھی انتہائی خراب ہے، کیونکہ ہر کچھ عرصے بعد بجلی کی قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگی بجلی کے باعث بے حال ہیں۔ گزشتہ روز بھی بجلی قیمت میں اضافے کی منظوری دے دی گئی۔نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے مہنگائی کے مارے عوام پر بجلی بم گراتے ہوئے بجلی مزید مہنگی کردی۔ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 76 پیسے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے، جس سے صارفین پر 46 ارب 61 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیپرا کے فیصلے کے مطابق صارفین سے جون میں اضافی ایک روپے 90 پیسے فی یونٹ کے حساب سے وصولی ہوگی جب کہ جولائی اور اگست میں اضافی 93، 93 پیسے فی یونٹ وصول کیے جائیں گے۔ بجلی قیمت میں اضافہ کسی طور مناسب نہیں گردانا جاسکتا کہ عوام پہلے ہی خاصی مہنگی بجلی استعمال کررہے ہیں۔ اُن کے لیے پچھلے 6 سال میں ہونے والی ہولناک گرانی کا سامنا کرنا پہلے ہی آسان ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے سلسلے بھی رہے ہیں۔ ایسے میں بجلی کی قیمت مزید بڑھانا عوام کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوگا۔ ایسے فیصلوں کے بجائے بجلی کی سہولت کو سستا کرنے کے ضمن میں اقدامات یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بجلی کے مہنگے ذرائع کو بتدریج چھوڑنا اور سستے ذرائع کو بروئے کار لانا ہوگا۔عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے حکمراں اُن کے مفاد میں فیصلے لینے میں چنداں تاخیر نہیں کرتے، وہ قوم کی مشکلات کے سدباب کے لیے پیش پیش اور ان کی بہتری پر کمربستہ رہتے ہیں۔ ایسا انتظام کیا جائے کہ آئندہ بجلی بل غریب کے لیے سوہانِ روح ثابت نہ ہو، اُس کی آمدن کا معمولی حصّہ اس سہولت کے بدلے صَرف ہو۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اب بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت ہوچکا، اب بجلی کے گراں ذرائع سے جان چھڑانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے توانائی کی پیداوار کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی اور سورج) پر فوکس کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے جتنے زیادہ ہوسکیں، منصوبے بنائے جانے چاہئیں اور انہیں مقررہ وقت پر مکمل کرکے ملکی ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی کے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں۔ آبی ذخائر چھوٹے ہوں یا بڑے، جتنے زیادہ ہوسکیں، تعمیر کیے جائیں۔ چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر سے ناصرف پانی کی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا، بلکہ وافر بجلی بھی میسر آسکے گی جو ناصرف ملک میں استعمال میں لائی جاسکتی بلکہ زائد ہونے کی صورت میں فروخت بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں موجود قدیم اور بوسیدہ بجلی کے ترسیلی نظام کو بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ دی جائے۔ یقیناً اس حوالے سے اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
منشیات سمگلنگ کیخلاف پاک بحریہ کا کامیاب آپریشن
منشیات کا عفریت ہمارے بے شمار نوجوانوں کو برباد کر چکا ہے اور کتنے ہی نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، ایک کروڑ سے زائد لوگ نشے کی لت میں مبتلا ہیں، ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں جو بظاہر تو نارمل لائف گزار رہے ہیں، لیکن کسی نہ کسی طرح منشیات کا استعمال چھپ کر کر لیتے اور اُن کا یہ عمل دُنیا سے پوشیدہ رہتا ہے۔ نشے کے عادی افراد اپنے اہل خانہ کے لیے عمر بھر کا روگ ثابت ہوتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو اس عادت کے باعث زندگی سے محروم ہوکر لواحقین کے لیی عمر بھر کا غم و الم چھوڑ جاتے ہیں۔ ملک میں منشیات کی فضائی، بحری اور زمینی راستوں سے اسمگلنگ کے سلسلے دراز نظر آتے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے ہماری فورسز متحرک رہتی اور اقدامات جاری رکھتی ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں بھی ملتی ہیں۔ گزشتہ روز پاک بحریہ نے منشیات اسمگلنگ کی بڑی کوشش ناکام بنادی۔پاک بحریہ کے جہاز یرموک نے شمالی بحیرہ عرب میں کامیاب انسداد منشیات آپریشن کرتے ہوئے 380کلو منشیات پکڑ لی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک بحریہ کے جہاز ( پی ایس ایس یرموک) نے شمالی بحیرہ عرب میں کارروائی کرتے ہوئے 380کلو قیمتی منشیات ضبط کرلی۔ ضبط کی جانے والی منشیات کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت ہزاروں ڈالرز ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ منشیات اسمگلنگ کے خلاف کامیاب آپریشن پاک بحریہ کی سمندر میں موثر نگرانی کا نتیجہ ہے، پاک بحریہ کے بحری جنگی جہاز سمندر میں منشیات اسمگلنگ، بحری قزاقی اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے باقاعدگی سے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہ بڑی کامیابی ہے اور اس پر پاک بحریہ کی جتنی تحسین کی جائے، کم ہے۔ ہماری افواج اپنی ذمے داریاں احسن انداز میں سرانجام دے رہی ہیں، قوم انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دوسری جانب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے منشیات کے مکمل خاتمے کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ منشیات کے اسمگلروں اور اس کو بیچنے والوں کا قلع قمع کیا جائے۔ اس کے لیے ملک کے طول و عرض میں سخت کریک ڈائون ناگزیر ہے۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کریک ڈائون کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک منشیات کی لعنت کا اس ملک سے مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا

جواب دیں

Back to top button