خوشحالی اور ترقی جلد مقدر ہوگی

پچھلے 5، 6سال کے دوران ملک و قوم پر آنے والی مشکلات کا زور ٹوٹتا دِکھائی دیتا ہے۔ یہ سب نگراں حکومت اور اُس کے بعد عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی اتحادی حکومت کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جس کے دوررس اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں نگراں حکومت نے ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیاء اسمگل اور ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کیا تھا۔ بڑے پیمانے پر ڈالر، سونا، گندم، چینی وغیرہ پکڑے گئے۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کے نرخ میں کمی آنی شروع ہوئی۔ گندم، کھاد اور چینی کے ریٹ گرنا شروع ہوئے۔ سونا بھی سستا ہونے لگا۔ یہ کریک ڈائون آج تک جاری ہے۔ اس کے مثبت اثرات پہلے بھی ظاہر ہوئے، اب بھی ہورہے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوں گے۔ اس کے بعد ملکی معیشت اور وسائل پر عرصۂ دراز سے بوجھ بنے ہوئے غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کو اُن کے وطنوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ زبردستی کے مہمانوں (جن کی تعداد لاکھوں میں تھی) کو اُن کے ملک واپس بھیجا گیا۔ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ اس سے بھی معیشت اور وسائل پر بوجھ میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ جرائم کی شرح میں کمی ہوئی۔ پاکستانی روپے کے مضبوطی اختیار کرنے سے نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بہت بڑی کمی یقینی بنائی۔ برآمدات بڑھانے پر توجہ دی گئی جبکہ درآمدات کو گھٹانے کے لیے اقدامات یقینی بنائے گئے۔ ایس آئی ایف سی کی قیام کے بعد سے بیرونِ ممالک سے عظیم سرمایہ کاری پاکستان لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات یقینی بنائے گئے۔ سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو، سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اس کے لیے بیرونِ ممالک کے کئی دورے کیے اور ان کو پاکستان میں عظیم سرمایہ کاری کے لیے راضی کیا۔ اس حوالے سے معاہدات طے پائے۔ اس کے نتیجے میں چین، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، کویت کی جانب سے بڑی سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے، جس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے جب کہ بے روزگاری کے عفریت سے نجات بھی مل سکے گی جب کہ ملک اور قوم کی خوش حالی کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔ ملک میں زراعت کے شعبے پر پچھلے کچھ عرصے سے خاصی توجہ دی جارہی ہے اور اس کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ اب بھی گزشتہ کچھ عرصے سے ڈالر کے ریٹ گر رہے، پاکستانی روپیہ مستحکم و مضبوط ہورہا ہے جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ آٹے، چاول، تیل، گھی وغیرہ کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت خزانہ نے ماہانہ بنیادوں پر معاشی آئوٹ لُک رپورٹ جاری کردی ہے، رواں سال ترسیلات زر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا، برآمدات میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 10.6فیصد اضافہ ہوا، درآمدات میں رواں مالی سال 5.3فیصد کی کمی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے، اس کے ساتھ مہنگائی میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، ترسیلات زر میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 3.5فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ وزارت خزانہ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر، ایف بی آر محصولات، نان ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوا۔ برآمدات میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 10.6فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کی درآمدات میں رواں مالی سال 5.3فیصد کی کمی، بیرونی سرمایہ کاری میں 10ماہ میں 93.1فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ زرمبادلہ ذخائر میں 10ماہ میں 5ارب ڈالر تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایک سال میں روپے کی قدر میں 9روپے تک اضافہ ہوا، 10ماہ میں ایف بی آر محصولات میں 30.6فیصد کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ رواں مالی سال نان ٹیکس آمدن میں 94.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں مالی سال مالی خسارے میں 26.8فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ مہنگائی 28.2فیصد سے کم ہوکر 26فیصد پر آگئی۔ ماہانہ آئوٹ لُک بہتری کی جانب اشارہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حالات بہتر رُخ اختیار کر رہے ہیں۔ عظیم سرمایہ کاری ملک آرہی ہے۔ مہنگائی کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ برآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں جبکہ درآمدات میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ عوام کی اشک شوئی کی ابتدا ہوچکی ہے۔ ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں غریبوں کے تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔ معیشت کی ترقی اور بہتری کے لیے درست راہ کا انتخاب کرلیا گیا ہے اور معیشت کی گاڑی اسی طرح صحیح پٹری پر چلتی رہی تو ان شاء اللہ جلد ملک و قوم کے لیے خوش خبریوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ارض پاک قدرت کی خاص عنایت ہے۔ یہ تا قیامت قائم و دائم رہے گی۔ ماضی سے لے کر اب تک اسے بارہا نقصان پہنچانے اور مشکلات سے دوچار کرنے کی مذموم کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ ہر بار ایسی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنایا گیا ہے اور آئندہ بھی دشمنوں اور اُن کے آلہ کاروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ پاکستان کچھ ہی سال میں ترقی یافتہ ممالک میں فہرست میں اپنا خاص مقام بنانے میں سرخرو رہے گا۔
پولیو کا خاتمہ، مگر کیسے؟
پولیو انتہائی خطرناک وائرس ہے، جو اطفال کو اپنی لپیٹ میں لے کر عمر بھر کی معذوری سے دوچار کردیتا ہے۔ ماضی سے لے کر اب تک نہ جانے ہمارے ملک کے طول و عرض میں بسنے والے کتنے بچے اس کا شکار ہوکر عمر بھر کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔ دُنیا کے لگ بھگ تمام ممالک سے ہی اس کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے، چند ایک کو چھوڑ کر، اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پولیو کے خلاف سالہا سال سے مہمات جاری ہیں، حکومت تندہی سے پولیو کو شکست دینے کے لیے کوشاں ہے، اس کے انسداد کے لیے ہر کچھ عرصے بعد ملک گیر مہم کا انعقاد ہوتا ہے، اس کے باوجود اس کا یہاں سے قلع قمع نہیں ہو پا رہا ہے، اس کی اہم وجہ پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین سے متعلق من گھڑت پروپیگنڈوں کا زور ہے، جن کا شکار ہوکر بعض والدین اپنے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ماضی میں تو ملک کے بعض حصّوں میں پولیو مہم میں شامل کارکنان اور اُن کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر حملوں کے سلسلے بھی دِکھائی دیتے ہیں، گو جن کا زور اب ٹوٹ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود پولیو مہمات میں وہ کامیابی نہیں مل پارہی، جس کی توقع کی جاتی ہے۔ پولیو وائرس کی موجودگی کی وجہ سے پاکستانی عوام کو بیرون ملک سفر کے دوران سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ امر جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔ اب بھی آئے روز اس حوالے سے کوئی نہ کوئی منفی اطلاع سامنے آتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز ملک کے پانچ شہروں کے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی اور لاہور سمیت 5بڑے شہروں میں وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، 8ماحولیاتی نمونے مثبت نکل آئے، جس کی قومی ادارہ صحت کی ریجنل پولیو لیبارٹری نے تصدیق کردی۔ رواں سال صرف پانچ ماہ میں ملک کے 39اضلاع میں پولیو کے مثبت ماحولیاتی نمونوں کی تعداد 150کے قریب جا پہنچی۔ این آئی ایچ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقوں کیماڑی اور ملیر میں سیوریج کے پانی میں تین مقامات پر پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔ لاہور، حیدرآباد اور جیکب آباد کے ایک ایک ماحولیاتی نمونے میں پولیو وائرس پایا گیا۔ سکھر شہر کے 2ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس مثبت آیا۔ لاہور سے ماحولیاتی نمونے 14مئی کو، جیکب آباد سے 7مئی اور حیدرآباد سے 8مئی کو لیے گئے تھے۔ کراچی اور حیدرآباد سے بھی پانچ نمونے رواں ماہ قومی ادارہ صحت کی لیبارٹری بھجوائے گئے، تمام نمونے مثبت نکلے۔ یہ خبر یقیناً تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہے۔ پولیو کو اُس وقت تک مکمل شکست نہیں دی جاسکتی، جب تک والدین اس حوالے سے ہونے والی مہمات میں اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین کے قطرے نہیں پلواتے۔ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ اہم شخصیات پولیو ویکسین سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے میں اپنا کردار ادا کریں۔ میڈیا بھی اپنی ذمے داری نبھائے۔ پولیو مہمات کو کامیابی سے ہر صورت ہمکنار کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ پولیو کو مکمل شکست دینے کا عزم کیا جائے اور اس کے لیے پوری قوم ایک پیج پر ہو۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔





