Columnمحمد مبشر انوار

دو قدم پیچھے

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
پاکستان میں بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ادارے اور محکمے ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہیں اور عالمی برادری و عوام الناساس صف آرائی کے حوالے سے یہ تاثر مضبوط ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے اس صف آرائی کے نتیجہ میں ریاست پاکستان شدید نقصان اٹھانے جا رہی ہے۔تاریخ سے ایسے شواہد ضرور ملتے ہیں کہ جب ریاستی ادارے باہم پیکار ہوں تو اس کانقصان بہرطور ریاست ہی کو ہوتا ہے بالخصوص ایسی صورتحال میں کہ جب ہرسو نفسا نفسی اور اختیار کی رسہ کشی دکھائی دے رہی ہو،نقصان ریاست کو ہی پہنچتا ہے۔ ارباب اختیار بالعموم ریاست کو ایسی نہج تک پہنچنے نہیں دیتے اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ،سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں تا کہ مسائل کا حل باہم اتفاق سے نکالا جائے او رریاست کے امور بخیر و خوبی انجام دئیے جاتے رہیں۔ یہاں بنیادی امر ریاستی عہدیداروں کی درجہ بندی کے مطابق تفویض شدہ اختیارات کا احترام اور نظم و ضبط کو قائم رکھنا،اپنے فرائض کی ادائیگی اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ریاستی امورسرانجام دینے سے ہی ریاست کی بقا ء و احترام ممکن ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فرائض کی انجام دہی میں ادارے و محکمے،اپنے دائرہ اختیار سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں جس کے باعث توازن بگڑ چکا ہے،تسلیم کہ اس توازن کو بگاڑنے میں مقننہ،انتظامیہ و عدلیہ کی شدید کوتاہیاں رہی ہیں ،جو اول الذکر دو اداروں میں آج بھی جاری و ساری ہیں جبکہ موخرالذکراپنے فرائض کی ادائیگی، اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل دکھائی دے رہا ہے،گو کہ اس میں بہت تاخیر ہو چکی ہے لیکن صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔تاہم اس کوشش میں یہ امر بہرطور مدنظر رہنا چاہئے کہ دور جدید میں ریاستیں اقوام عالم میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں بلکہ دشمن ملکوں کے جارحانہ عزائم اور دفاعی تیاریوں سے متعلق ان کی تیاریوں سے باخبر بھی رہتی ہیں تا کہ بروقت اس کا تدارک کیا جا سکے۔اس مقصد کے لئے ہر وہ ریاست،جسے اپنی بقاء کے لئے برسرپیکار رہنا ہوتا ہے،اپنی عالمی حیثیت کو برقرار و قائم رکھنا ہوتا ہے،اپنی ایسی خفیہ ایجنسیوں کے لئے نہ صرف بھاری بھرکم بجٹ مہیا کرتی ہے بلکہ ان کی تربیت ایسے خطوط پر کی جاتی ہے کہ وہ ملکی مفادات کی خاطر کچھ بھی کرگزرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور ان کے بیرون ملک آپریشنز پر اٹھنے والے اخراجات کی فراہمی بھی ریاست یقینی بناتی ہے بشرطیکہ ایسا کوئی بھی آپریشن ملکی مفادات کے حصول میں فائدہ مند ہو۔اس کی چند ایک مثالیں ہمیں حالیہ چند سالوں میں بھی ملتی ہیں کہ اگر موجودہ صورتحال میں اسرائیل کو سامنے رکھیں تو جو آپریشن اس وقت اسرائیل اور اس کی خفیہ ایجنسی بیرون ملک ،اپنے دشمنوں کے خلاف کررہی ہے،اس کے لئے اسے کتنی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں،حتی کہ اندرون ملک جو کارروائیاں وہ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں،ان پرسینکڑوں سوال کئے جا سکتے ہیں لیکن بطور ریاست اسرائیل،اس کے اقدامات اپنی ریاست گو کہ ناجائز ریاست ہے،کے لئے فائدہ مند ہیں۔ بعینہ امریکہ بھی اپنی خفیہ ایجنسیوں کی اسی طرح پشت پناہی کرتا ہے،بیرون ملک
ایسے آپریشنز کے لئے باقاعدہ بحث مباحثہ ہوتا ہے،بجٹ مختص کیا جاتا ہے،اس کی منظوری دی جاتی ہے درون خانہ اس کاآڈٹ بھی ہوتا ہے لیکن ایسے بجٹ کو دیگر مصارف کی طرح عوام کے سامنے نہیں رکھا جاتا کہ اس کا مقصدریاستی خفیہ منصوبوں سے ہوتا ہے،جنہیں بالعموم سیکرٹ رکھا جاتا ہے۔ تقریبا ہر ریاست میں ایسی ایجنسیاں بھی ہوتی ہیں جو اندرون ملک ،شر پسند عناصر پر نظر رکھتی ہیں ،تا کہ ملکی سلامتی کو محفوظ رکھا جا سکے تاہم ترقی یافتہ ممالک میں یہ ایجنسیاں سختی کے ساتھ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دیتی ہیں اور سربراہ مملکت کے غیر قانونی احکامات کی بجا آوری کی بجائے،مستعفی ہونے کو ترجیح دیتی ہیں،جس کی مثال سی آئی اے کے سابقہ سربراہ کی ہے،جس نے سابق صدر ٹرمپ کے غیر قانونی احکامات کی بجا آوری کرنے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی تھی۔اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں شاعر،ادیب و صحافی احمد فرہاد کی بازیابی کا مقدمہ زیر سماعت ہے اور اٹارنی جنرل کی یقین دہانی تھی کہ وہ گزشتہ جمعہ کو بازیاب ہو جائیں گے تاہم ایسا نہیں ہو سکااور جناب جسٹس محسن اختر کیانی نے اس حوالے سے جو ریمارکس دئیے،انہیں سخت ترین ریمارکس ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے ریمارکس کی نوبت آئی کیوں؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے کہ جس کا جواب جاننے کے لئے پوری قوم متجسس ہے کہ ہماری ایجنسی یا ایجنسیاں، ایسی کارروائیاں کیوں اور کس کے ایماء پر کرتی ہیں؟واقعتا ہماری ایجنسیوں کو انتظامیہ ایسی کارروائیوں پر مجبور کر سکتی ہے یا یہ ازخود ایسی کارروائیاں کرتی ہیں؟بالفرض ازخود نہیں کرتی ہیں تو کیا یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے؟یہ وہ مقام ہے کہ جہاں جسٹس محسن اختر
کیانی کو اتنے سخت ریمارکس دینے کی ضرورت پیش آئی کہ جسٹس محسن اختر کیانی بھی ان چھ ججز میں شامل ہیں،جنہوں نے دباؤ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ یعنی ایک آئینی ادارے میں فرائض منصبی ادا کرنے والے کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ ایک آئینی ریاست میں ،آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کرسکی،آئین و قانون کے مطابق فیصلے صادر کرکے اپنے اور اپنے ادارے کے لئے نیک نامی کما سکے۔ تسلیم کہ ماضی میں عدلیہ کی کمزوری یا کوتاہی کے باعث ،ادارہ اپنے فرائض کماحقہ ادا کرنے سے قاصر رہا لیکن آج بتدریج ادارہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لئے بروئے کار آنے کی سعی کر رہا ہے تو ایک آئینی ریاست میں اسے اس کی اجازت ہونی چاہئے البتہ عدلیہ کی جانب سے نہ صرف انصاف ہونا چاہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ پسند و نا پسند یا دباؤ سے کلیتا آزاد عدلیہ ہی معاشرے میں امن و امان اور استحکام کی ضامن ہو سکتی ہے اگر حقیقتا فیصلے آئین و قانون کے مطابق دئیے جائیں،محکموں کو ان کے دائرہ اختیار میں رہنے کے لئے پابند کیا جائے،غیر قانونی اقدامات پر سرزنش ہو،سیاسی مداخلت ختم ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دوبارہ اپنی گم گشتہ منزل کو تلاش کرلے۔پاکستان میں اس وقت ہر شعبہ ہائے زندگی میں عدم استحکام کا دور دورہ ہے جس کی بنیادی وجہ ہی کسی فرد واحد کی ذاتی پسند وناپسند دکھائی دیتی ہے ،وہ مسائل جنہیں مروجہ قوانین کے تحت بروئے کار آنے پر،پیدا ہی نہیں ہونا چاہئے،اس وقت پورے معاشرے کو ہیجان میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔اس صف بندی کو اگر بغور دیکھا جائے اور اس کو ذاتی انا و ضد بنائے بغیر،آئین و قانون کے مطابق دیکھیں تو اس سے قوی امید ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی و ہیجان ختم ہو سکتا ہے۔ہر ادارے کو اس کے تفویض کردہ کردار کے مطابق بروئے کار آنے دیا جائے تو بہت سے مسائل بڑی آسانی کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں اور اگر اس کو ذاتیات کی سطح پر لایا جائے تو پھر نہ صرف مخاصمت بڑھتی نظر آتی ہے بلکہ اداروں کے ٹکرائوسے،ریاست کا نقصان ہوتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی محکمے کا اگر یہ گمان ہے کہ ریاست کے دیگر ادارے یا محکمے درست کام نہیں کررہے ،اور اس خلاء کو پر کرنے کے لئی اس کا آگے آنا ضروری ہے کہ پوری ریاست کا بوجھ اس کے مضبوط کندھوں کا محتاج ہے،تو موجودہ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ وہ محکمہ اپنے کندھوں پر صرف انہی فرائض کا بوجھ اٹھائے،جو ریاست نے اسے تفویض کررکھا ہے اور دیگر اداروں /محکموں کو ان کی ذمہ داری اٹھانے کا موقع فراہم کرے۔اگر لمحہ موجود میں محکمہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا اور مسلسل اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو پھر اسے جوابدہ ہونا پڑے گا،جوابدہی میں بہرکیف اس کی ساخت،ہیئت و اختیارات کا سوال عوام الناس میں آئے گا،جو بہرطور ریاست کے لئے کسی بھی طور فائدہ مند نہیں ہوگا۔تاہم اس حقیقت میں کوئی کلام ہرگز نہیں کہ عدالتیں بھی اسی ریاست کی ہیں اور انہیں یقینی طور پر اس حقیقت کا ادراک ہے کہ خفیہ ایجنسیوں سے کھلے عام ایسے سوالات پوچھنا،قومی مفادات کو زک پہنچا سکتے ہیں اور اس کا فائدہ بہرطور دشمن اٹھا سکتے ہیں۔ لہذا اس پس منظر میں یہ قوی گمان ہے کہ عدالتوں کو مقصد فقط اتنا ہو سکتا ہے کہ ان ایجنسیوں کو ،ان کے دائرہ کار تک محدود کیا جائے اور یہ توقع بھی رکھنی چاہئے کہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے،مذکورہ ایجنسی ریاستی مفاد میں اپنے دائرہ کار میں رہنے کی یقین دہانی کروا کر معاملے کو ختم کرے اور دوسری طرف عدلیہ بھی ریاستی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے، یقین دہانی پر جوابا دو قدم پیچھے ہٹ جائے اور معاملہ مستقلا حل ہو جائے نہ کہ دو قدم پیچھے ہٹ کرپھر اپنے ہی ہموطنوں پر دوبارہ جارحیت کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button