اسرائیلی حملوں میں مزید 230فلسطینی شہید

تاریخ انسانی میں دُنیا کے ظالم ترین ممالک کی فہرست میں اسرائیل ہمیشہ سرفہرست گردانا جائے گا کہ اس نے ظلم و ستم، سفّاکیت، درندگی، ہٹ دھرمی میں سب کو مات دے دی ہے۔ یہ اتنی ڈھیٹ ریاست ہے کہ گزشتہ ہفتوں اقوام متحدہ میں فلسطین پر حملے روکنے سے متعلق قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی۔ عالمی عدالتِ انصاف مارچ کے اواخر میں اسے غزہ پر حملے روکنے کا حکم دے چکی تھی۔ پچھلے دنوں پھر عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے جاری آپریشن روکنے کا حکم صادر کیا گیا، لیکن یہ کسی بھی حکم کو خاطر میں نہیں لائی اور اس کی جانب سے حملوں میں مزید شدّت لائی گئی۔ پوری دُنیا کے ممالک اس سے حملے روکنے کے مطالبات کرتے کرتے تھک کر چُور ہوچکے، لیکن مجال ہے اس ڈھیٹ کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ اس کی جانب سے کیے گئے حملوں کے ذریعے ساڑھے 36ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو پونے آٹھ ماہ کے دوران شہید کیا جاچکا ہے، ان میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ جنگی اصولوںکو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے حملوں کے سلسلے جاری ہیں۔ عبادت گاہیں محفوظ ہیں نہ تعلیمی ادارے، اسپتال محفوظ ہیں نہ امدادی اداروں کے دفاتر، ہر سُو اسرائیل کا قہر برس رہا ہے۔ خود کو دُنیا کے مہذب ممالک گرداننے والے کچھ سفّاک ملک اب بھی اسرائیل کو تھپکی دیتے اور ہر طرح سے اُس کی سپورٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ ہو، عالمی عدالت انصاف یا کوئی اور پلیٹ فارم، انہوں نے اسرائیل کو مظلوم اور درست ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایسے بے حسوں کے بیچ ایسے بھی ملک ہیں جو فلسطین میں سسکتی انسانیت کے نوحے پر غم کی کیفیات سے دوچار ہیں اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر ببانگ دہل فلسطین کو تسلیم کررہے ہیں۔ پچھلے دنوں اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔ یہ فلسطینیوں کی بڑی کامیابی ہے۔ یورپی ممالک کی جانب سے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہ مظلوم فلسطینیوں کی بڑی فتح ہے اور ان کے آزاد اور خودمختار ریاست کے لیے راہ ہموار ہونے کا نکتۂ آغاز بھی۔ بہرحال ڈھیٹ اور سفّاک ریاست کی جانب سے فلسطین پر آتش و آہن برس رہا ہے، غزہ کا تو پورا انفرا اسٹرکچر برباد کردیا گیا اور پچھلے چند ہفتوں سے رفح اُس کا خاص ہدف ہے۔ گزشتہ روز بھی 230فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کے خیموں پر بمباری کے بعد اسرائیلی فوج نے رفح میں رہائشی عمارت پر حملہ کردیا، جس کے بعد گزشتہ 24گھنٹے کے دوران 230سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے رفح شہر کے علاقے تل السلطان، سعودی، تل زروب اور الحشاشین کو نشانہ بناتے ہوئے گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں متعدد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے تازہ حملوں کا سلسلہ رات گئے سے جاری ہے، جہاں اسرائیلی فوج نے رفح میں محفوظ قرار دیئے گئے علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر گولے برسائے جس میں 45فلسطینی شہید ہوگئے، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی شامل ہے۔ غزہ میں لڑائی کے باعث 20دن میں 10لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوگئے۔ رفح کا کویتی اسپتال بھی اسرائیلی حملوں کی وجہ سے بند کردیا گیا۔ ادھر رفح حملے کے بعد بیلجیئم کے نائب وزیراعظم نے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ کینیڈین وزیر خارجہ نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملہ انتہائی خوف ناک ہے۔ الجزائر نے رفح قتل عام پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کردیا۔ جرمنی نے کہا کہ رفح میں فضائی حملے میں بچوں سمیت جلی ہوئی لاشوں کی تصاویر ناقابل برداشت ہیں، شہری آبادی کو بہتر طور پر تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی رفح کے فلسطینی مہاجر کیمپ پر بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔ گوتریس نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ غزہ غیر محفوظ بن چکا، اسرائیلی حملوں میں معصوم فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے جسے روکنا ضروری ہے۔ افریقہ یونین کمیشن کے سربراہ موسیٰ فقی محمد نے بھی رفح میں پناہ گزین فلسطینیوں کے خیموں پر اسرائیلی بم باری کی شدید مذمت کی ہے۔ فرانسیسی صدر نے بھی کہا ہے کہ رفح پر اسرائیل کے حملے بند ہونے چاہئیں۔ ادھر آئر لینڈ کے وزیر خارجہ مائیکل مارٹن نے کہا ہے کہ یورپی یونین غزہ میں اسرائیلی جنگ پر اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر غور کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل عالمی عدالت کا فیصلہ نہیں مانتا تو اس پر یورپی یونین کی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ دریں اثنا پیرس، نیویارک، بارسلونا، تیونس اور مانچسٹر سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرے کیے گئے، مظاہرین نے عالمی برادری سے اسرائیل پر سخت پابندیوں کا بھی مطالبہ کیا۔ پوری دُنیا فلسطینیوں کے لیے آوازِ حق بلند کررہی ہے۔ اسرائیل کے ظلم و ستم کا قصہ اب تمام ہونے کو ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ مٹنے کے نزدیک ہوتا ہے۔ یہی معاملہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اللہ کی مدد بھی شاملِ حال ہوگی۔ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ پوری دُنیا ہے۔ ان شاء اللہ وہ وقت دُور نہیں جب اسرائیل کی داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں اور فلسطین آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر اپنی شروعات کرے گا۔
ایل پی جی کی قیمت میں ریکارڈ کمی
یکم جون سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے مسلسل ایندھن کے نرخ گر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کی گئی ہے۔ اس سے مہنگائی کا زور بھی ٹوٹتا دِکھائی دیتا ہے۔ دو ماہ کے دوران آٹا 55روپے فی کلو سستا ہوچکا ہے۔ تیل، گھی کی قیمتوں میں بھی 70، 80روپے تک کمی آئی ہے۔ چاول اور دالوں کی قیمتوں میں کچھ نہ کچھ کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ روز یوٹیلٹی اسٹورز پر گھی کی قیمت میں بڑی کمی کی گئی ہے۔ اور بھی کئی چیزوں کے دام گررہے ہیں۔ آٹا سستا ہونے سے بہت سے مقامات پر روٹی اور نان کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے، لیکن کئی مقامات پر اب بھی روٹی اور نان مہنگے داموں فروخت ہورہے ہیں، پراٹھے پُرانے ریٹ پر بیچے جارہے ہیں، اسی طرح بیکری آئٹمز کی بھی پُرانی یعنی زائد قیمتیں وصول کی جارہی ہیں، ان کی قیمتوں کو مناسب سطح پر لانے کے لیے تمام شہروں کی متعلقہ انتظامیہ کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ خوش کُن امر یہ کہ پچھلے دنوں اوگرا نے بھی قدرتی گیس کی قیمت میں 10 فیصد کمی کی تجویز پیش کی ہے۔ یوں عوام کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو یقیناً اچھا امر ہے اور اس سلسلے کو یوں ہی جاری و ساری رہنا چاہیے۔ اب ایل پی جی کے نرخ میں بڑی کمی سامنے آئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ایل پی جی کی قیمت میں بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ چیئرمین ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز عرفان کھوکھر کے مطابق ملک میں ایل پی جی کی قیمت 250روپے سے کم ہوکر 180روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ چیئرمین ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز کا کہنا ہے کہ ایل پی جی کی قیمت میں 60سے 70روپے فی کلو کمی ہوئی ہے۔ دوسری جانب آئل اینڈ گیس کانفرنس سے خطاب کرتے چیئرمین اوگرا کا کہنا تھا پاکستان میں ایل پی جی میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور آئندہ 5برسوں میں ملک میں ایل پی جی کا استعمال بہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ ایل پی جی کی قیمت میں بڑی کمی یقیناً اچھا امر ہے۔ ملک میں پچھلے چند سال سے گیس کا بحران ہے۔ قیمتیں کم ہونے سے ایل پی جی کے گھریلو صارفین سمیت دیگر پر مالی بوجھ میں خاصی کمی واقع ہوگی۔ گرانی کا زور ٹوٹنا ایک مثبت اشارہ ہے۔ پچھلے 6سال سے بدترین مہنگائی کو بھگتنے والے غریب عوام پر مالی بوجھ کم ہوگا۔ حکومت کو مہنگائی میں مزید کمی کے لیے راست اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں مزید تیزی لائی جائے، اس سے مزید فوائد کے حصول کی راہ ہموار ہوگی۔





