خیبر پختونخوا: سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں 23دہشتگرد ہلاک، 5جوان شہید

پاکستان سانحہ نائن الیون سے قبل پُرامن ملک تھا۔ 2001ء میں اس سانحے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ امریکا اور اتحادی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں، وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ پے درپے حملے جاری رکھے گئے۔ افغانستان پر آتش و آہن برستا رہا۔ روزانہ بم دھماکے اور خودکُش حملے معمول بن گئے۔ پڑوسی ہونے کے باعث دہشت گردی کا عفریت یہاں بھی سر اُٹھانے لگے۔ پاکستان میں امن و امان کی فضا مکدر ہونے لگی۔ روزانہ ہی بم دھماکے ہوتے تھے، جن میں درجنوں لوگ جاں بحق ہوجاتے تھے۔ ملک کا کوئی حصّہ دہشت گردوں سے محفوظ نہ تھا۔ عوام شدید خوف و ہراس میں مبتلا رہتے تھے۔ صبح کو گھر سے نکلنے والے کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کوزندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکوں گا یا نہیں۔ 15سال تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے نتیجے میں 80ہزار سے زائد بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، ان میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران و اہلکار بھی شامل تھے۔ دسمبر 2014میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنی کا عزم کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا، جس میں بڑی کامیابیاں ملیں، تمام تر دہشت گردوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم واصل کیا گیا، ان کی کمین گاہوں کو نیست و نابود کیا گیا، متعدد دہشت گرد گرفتار کیے گئے۔ آپریشنز ضرب عضب اور ردُالفساد کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی۔ امن و امان کی فضا بحال ہوگئی۔ عوام نے سکون کا سانس لیا۔8؍9 سال تک امن و امان کی صورت حال برقرار رہی، لیکن پچھلے دو سال سے دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھاتا دِکھائی دیتا ہے۔ دہشت گرد ملک میں امن و امان کی فضا کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ مسلسل پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملے کیے جارہے ہیں۔ سیکیورٹی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے قافلوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ان مذموم واقعات میں کئی جوان اور افسر شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے پھر سے مختلف آپریشنز کا آغاز کیا گیا اور اس دوران متعدد علاقوں میں نا صرف دہشت گردوں کو مارا گیا، اُن کے ٹھکانے تباہ کیے گئے بلکہ اُن کے ناپاک وجودوں سے ان علاقوں کو بھی پاک کیا گیا۔ دہشت گردی سے نبردآزما سیکیورٹی فورسز مصروفِ عمل ہیں اور انہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ مختلف علاقوں میں آپریشنز جاری ہیں۔ گزشتہ روز بھی دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنز میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ دو درجن کے قریب دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران 5جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں 23دہشت گرد ہلاک ہو گئے جب کہ دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں 5جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز نے 3الگ کارروائیاں کیں اور موثر طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا پتا لگایا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 23دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ 5جوانوں نے بھی مادر وطن کی حفاظت کے دوران جام شہادت نوش کیا۔ شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 26مئی کو خفیہ اطلاع پر پشاور کے علاقے حسن خیل میں آپریشن کیا گیا، جس میں 6دہشت گردوں کو ہلاک کرکے ان کے ٹھکانے تباہ کیے گئے، کیپٹن حسین جہانگیر اور حوالدار شفیق اللہ نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 27مئی کو ڈسٹرکٹ ٹانک میں آپریشن کیا گیا، جس میں 10دہشت گرد مارے گئے۔ ضلع خیبر میں فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران پانچ بہادر جوان شہید ہوئے، جن کی شناخت نائیک محمد اشفاق بٹ، لانس نائیک سید دانش افکار، سپاہی تیمور ملک، سپاہی نادر صغیر اور محمد یاسین شامل ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کے قبضے سے بڑی مقدار میں اسلحہ، گولا بارود اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا، ہلاک دہشت گرد سیکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ علاقے میں پائے جانے والے کسی دوسرے دہشت گرد کو ختم کرنے کے لیے سینی ٹائزیشن آپریشنز بھی کیے گئے، سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ دریں اثنا سپاہی تیمور شہید، سپاہی نادر صغیر شہید، سپاہی محمد یاسین شہید اور لانس نائیک سید دانش کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کر دی گئی جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، فوجی اور سول حکام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شہدا کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں میں سپرد خاک کیا جائے گا۔23دہشت گردوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچانا یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ 5جوانوں کی شہادت پر پوری قوم اُن کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ملک کے لیے اُن کی دی گئی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ شہداء اور ان کے لواحقین محب وطن عوام کے لیے ہر لحاظ سے قابل احترام ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے تمام افسران اور اہلکار قوم کا فخر ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز ہورہے ہیں۔ ان شاء اللہ پاکستان پھر سے دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے میں کامیاب ہوجائے گا اور ملک میں امن و امان کی فضا ایک بار پھر بحال ہوجائے گی۔
طلعت حُسین کا انتقال، فن کی دُنیا سوگوار!
پاکستان کو ابتدا سے ہی فن کی دُنیا میں عظیم شخصیات کا ساتھ میسر رہا، جنہوں نے پوری دُنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے عظیم اور سینئر فنکاروں کی کہکشاں بکھرتی نظر آرہی ہے۔ دُنیا کا تو یہ دستور ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ ایک روز لازمی چکھنا ہے، لیکن کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیں کہ جن کے انتقال پر سبھی سوگوار ہوجاتے ہیں کہ اُن کی پُرکشش، لازوال اور محبت کرنے والی شخصیت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ روز پاکستان کے لیجنڈری اداکار طلعت حُسین طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ طلعت حسین کے انتقال کی افسوس ناک خبر، اُن کی صاحبزادی تزئین حسین نے اپنے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کی پوسٹ کے ذریعے دی۔ تزئین حُسین نے اپنے انسٹاگرام ہینڈل پر والد طلعت حسین کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں گہرے رنج و غم کے ساتھ یہ اعلان کررہی ہوں کہ میرے پیارے والد طلعت حسین صاحب خالقِ حقیقی سے جاملے ہیں۔ اُنہوں نے مداحوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد طلعت حسین کی مغفرت کے لیے دُعا کریں۔ طلعت حسین کے انتقال پر پاکستانی شوبز انڈسٹری کو گہرا صدمہ پہنچا ہے، فنکاروں اور مداحوں کی جانب سے سینئر اداکار کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ طلعت حسین کی نمازِ جنازہ اتوار کی شام عصر کی نماز کے بعد کراچی کے علاقے خیابانِ اتحاد کی عائشہ مسجد میں ادا کی گئی۔ لیجنڈ ری اداکار طلعت حسین کی تدفین ڈیفنس فیز 8کے قبرستان میں کی گئی۔طلعت حسین 1940میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے پروفیسر رخشندہ حسین سے شادی کی تھی، اس جوڑی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے 1982میں طلعت حسین کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور سال 2021 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے کئی ڈراموں کو اپنی یادگار اداکاری سے امر بنادیا۔ پاکستانی فلم چراغ جلتا رہا سے لولی وُڈ میں قدم رکھا۔ کچھ فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔ طلعت حسین بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکار تھے۔ اُنہوں نے کچھ بیرون ممالک کی فلموں اور ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا، اُن میں ڈرامہ سیریل ٹریفک اور فیملی پرائیڈ قابل ذکر ہیں۔ بیرون ممالک کی فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بھارتی فلم سوتن کی بیٹی میں زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اُنہوں نے ملک اور بیرون ملک اپنے کام سے اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ طلعت حسین، جن کی آواز، تلفظ، ایکسپریشنز، صورت و سیرت، پاکستان میں بے مثال ہے۔ ایسی نہ تو کوئی آواز تھی اور نہ ہی کوئی پرفارمنس۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اداکار تھے۔ کتابوں سے اُن کی دوستی خاصی پُرانی تھی۔ اُن کی ادب کے ساتھ دوستی کا سلسلہ شروع سے جاری تھا۔ اُن جیسا کوئی دوسرا اداکار نہیں۔ شاید ہی اُن کا خلا کبھی پُر ہوسکے۔ ان کی رحلت پر اُن کے مداح سوگوار ہیں۔ طلعت حُسین کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اُنہیں مداح کبھی بُھلا نہیں پائیں گے۔





