چمن میں سرکاری دفاتر اور بینک تا حال بند، پاسپورٹ کی شرط کے خلاف دھرنا جاری

بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں جن سرکاری دفاتر اور بینکوں کو دھرنے کے شرکا نے تالا لگایا تھا ان کو تاحال نہیں کھولا جاسکا۔
دھرنے کے شرکا نے دفاتر اور بینکوں کو تالا لگانے کا اقدام چمن شہر میں گذشتہ سینیچر کے روز فائرنگ کے اس واقعے کے بعد کیا تھا، جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے، جن دفاتر کو تالے لگائے گئے ان میں کسٹمز آفس، پاسپورٹ آفس، نادرا آفس اور بینکوں کے علاوہ بعض دیگر دفاتر شامل ہیں جبکہ اس سے قبل چمن پریس کلب کو بھی تالا لگایا گیا تھا۔
فون پر رابطہ کرنے پر چمن پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ تاحال ان دفاتر کو نہیں کھولا جاسکا جن کو دھرنے کے شرکا نے تالا لگایا تھا۔
دوسری جانب فائرنگ کے واقعے کے بعد کوئٹہ اور چمن کے درمیان شاہراہ کو بھی مظاہرین نے بڑی گاڑیوں کے لیے بند کیا ہے۔
چمن سے افغانستان آمد ورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف گذشتہ سال اکتوبر سے چمن میں جو دھرنا دیا جا رہا ہے وہ نہ صرف چمن کی تاریخ کا طویل بلکہ بڑا دھرنا ہے۔
دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے بتایا کہ چمن کے لوگ یہ طویل دھرنا دینے پر اس لیے مجبور ہیں کہ پاسپورٹ کی شرط سے چمن کے ہزاروں لوگ معاش اور روزگار سے محروم ہوئے۔
ان کا کہنا تھا چمن کے عوام کی جائز مطالبے کو تسلیم کرنے کی بجائے گذشتہ سینیچر کو پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد دفاتر اور بینکوں کو تالا لگا دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک چمن سے دوبارہ قومی شناختی کارڈ پر لوگوں کی آمد ورفت کو بحال نہیں کیا جاتا اس وقت تک دھرنا جاری رہے گا۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ پاسپورٹ کے بغیر سفر کریں۔
انھوں نے کہا کہ چمن بارڈر سے پاسپورٹ کی شرط کے بعد وہاں پاسپورٹ آفس بنایا گیا اور نادرا آفس اور پاسپورٹ آفس میں عملے اور سہولیات کو بڑھایا گیا تا کہ لوگوں کے پاسپورٹ جلدی بنیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بالآخر اس ریاست کو ایک سافٹ ریاست سے ایک ہارڈ ریاست بنانا پڑے گا اور دنیا میں جو پریکٹسز دوسرے ممالک اختیار کررہے ہیں وہ ہمیں بھی اختیار کرنے پڑیں گے۔







