Column

زمانہ استاد ہے

عبد المالک ملک
وقت بڑا استاد ہے اور یہ سب سے بہترین مرہم بھی ہے ،وقت کے ساتھ زخم مندمل ہو جاتے ہیں، گہرے گھائو بھی بھرنے لگ جاتے ہیں اور یہی وقت ہی ہے جو کسی کا اچھا چل رہا ہوتا ہے تو کوئی برے فیز سے گزر رہا ہوتا ہے لیکن وقت جیسا بھی ہو، کٹ جاتا ہے، اچھے دن بھی سدا نہیں رہتے اور بدترین شب و روز ایک دن ختم ہو ہی جاتے ہیں اور یہی تو اللہ رب العالمین نے فرمایا ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اور سرکار دو عالمؐ کی حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، وقت اور صحت‘‘۔
گھڑیال کی ٹک ٹک ہر وقت ہمیں متنبہ کر رہی ہوتی ہے کہ یہ جو پل گزر رہا ہے واپس نہیں لوٹے گا ،لیکن انسان کے لیے بہترین وقت وہی ہے جس میں اس نے کسی کے ساتھ کوئی نیکی کما لی ہو اور اچھی کی ہو۔
ہم بڑے سے بڑا واقعہ ،سانحہ یا حادثہ وقت کے ساتھ ساتھ بھلا دیتے ہیں ،زیادہ دور نہیں جاتے یہی دیکھ لیجئے کہ کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے شروع کے دنوں میں ہم ہر محاذ پہ کتنے متحرک رہے ،پھر سست ہوتے گئے اور آج بھی ہماری رفتار انتہائی دھیمی ہے لیکن کشمیر کے مظلوم آج بھی ہماری راہ تک رہے ہیں ۔
اسی طرح فلسطین کو دیکھ لیجئے،غزہ کی صورتحال پہ ہم نے احتجاجی ریلیاں نکالیں ،فنڈز ریزنگ کے پروگرامزکا انعقاد کیا ،مذمتی قراردادیں پیش کی گئیں ،لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟ وہ ظلم تو آج بھی برپا ہے مگر ہم وقت وقت کے ساتھ ساتھ خاموش ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہمارا المیہ ہے کہ ایک دفعہ ہم صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے گونج بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور آواز بھی چُپ کا روزہ رکھ لیتی ہے۔
ہمارے یہاں کوئی آفت برپا ہوتی ہے ،کوئی زلزلہ یا سیلاب تباہی مچاتا ہے تو ہم بے چین ہو کر ان کی تکالیف کا مداوا کرنے نکل جاتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن پانی ابھی اترتا نہیں کہ ہمارے جذبے جھاگ کی مانند بیٹھ جاتے ہیں یعنی کہ وقت کے ساتھ ہماری ترجیحات کا محور تبدیل ہوجاتا ہے۔
وقت ریت کے ذروں کی مانند ہمارے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے بلکہ یوں کہئے کہ برف کی مانند پگھلا جارہا ہے اور اس کی رفتار میں تیزی ہے لیکن ہمیں وقت کی قدر نہیں ہے تبھی تو ہم ہمہ وقت دوسروں کی ٹوہ میں لگ کر ان کے عیوب دیکھنامشغلہ سا بنا لیا ہے ،جب کہ چاہئے تو یہی تھا کہ وقت کی قدرو منزلت کا اندازہ کرتے ہوئے ہم کسی کی خیرخواہی میں خرچ کرتے لیکن افسوس صدافسوس ہم الٹی چال چلنا یا الٹی تدبیر کرنا ہے اچھا خیال کرتے ہیں۔
جو دانا ہیں وہ وقت کی قدر کرتے ہیں ،اور اس پہ غور وخوض کرتے ہیں ،اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کی اچھائیوں کو نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا استاد ہے اور یہ زندگی کے وہ سبق بھی پڑھا دیتا ہے جوکوئی اور نہیں سکھا سکتا ،تاہم وقت کی رفتار کے ساتھ خود کو اپ ڈیٹ کرنا اور اس کی چال کے ساتھ چلنا ہی عظیم لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔
کمان سے نکلا تیر اور گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا ،اور موجودہ حالات میں ہمیں نوجوانوں کو اس بات کی ترغیب دینی ہوگی کہ وقت کی اہمیت کوجانئے اور وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالتے ہوئے زمانے کے طورطریقے سیکھئے کیونکہ دن بدن حالات تبدیل ہورہے ہیں ،وقت کی رفتار بڑھ رہی ہیں اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ،جس نے خود کو اپڈیٹ کرنا شروع کر دیا اور وقت کی رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت فیصلے لے لئے تو وہی کامیاب ہوگا،جیسا کہ ہم لکھاری کل تک کاتب کے مرہون منت تھے ،ٹائپنگ مشین کا دورتھا ،پھر فیکس کا زمانہ آیا ،اور پھر جدت آئی ،کمپیوٹر نے سب کی جگہ لے لی ،تو جولوگ خود کو حالات کے مطابق ڈھالتے رہے وہ کامیاب ٹھہرے اور جن کی رفتار سست تھی وہ بہت پیچھے رہ گئے۔
دنیا میں سب سے بڑا استاد وقت ہے لیکن اس میں خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹھہرتا نہیں ،رکتا نہیں بلکہ گزرجاتا ہے اور وہ برق رفتاری سے گزرا چلا جا رہا ہے ۔
آپ میں سے ہر کسی نے یہ بات یقینا نوٹ کی ہو گی کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں میں تبدیلی بھی دیکھی جارہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم وقت کی رفتار کے ساتھ چل نہیں پا رہے اور خواہش یہی ہے کہ خود کو تبدیل بھی نہیں کرنا اور وقت کے ساتھ چلنا بھی ہے جو کہ دشوار ہے۔
ہم میں سے ہر کسی کو ایک دن میں چوبیس گھنٹے ملتے ہیں اور یہ ہم پہ منحصر ہے یہ وقت کو ضائع کرناہے یا اس کو قیمتی بنا کر کچھ سیکھنا ہے، احمد فراز یاد آئے کیا خوب کہا تھا :
آنکھ سے دور نہ ہو ،دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے ،گزرتا ہے ،گزر جائے گا

جواب دیں

Back to top button