باجوڑ: پولیو سیکیورٹی ٹیم پر دہشت گرد حملہ
پاکستان 15سال تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ 2001ء سے 2015ء تک عبادت گاہیں محفوظ تھیں نہ عوامی مقامات۔ ان جگہوں پر دہشت گرد جب چاہتے تھے، اپنی مذموم کارروائیاں کر گزرتے تھے۔ کوئی روز ایسا نہ گزرتا تھا، جب ملک کے کسی گوشے میں دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہوتا ہو۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو صحیح سلامت گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ اس دوران پولیو کے انسداد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کے ڈھیروں واقعات رونما ہوتے تھے۔ انسداد پولیو ٹیموں پر دہشت گرد حملے کیے جاتے تھے۔ کئی پولیو کارکنان ان دہشت گرد کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کی متواتر کارروائیوں کے باوجود ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھی گئیں، ہر کچھ عرصے بعد پولیو مہم کا آغاز کیا جاتا۔ پولیو سے بچائو کی ویکسین سے متعلق طرح طرح کے مفروضے گھڑے گئے۔ اس حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈے پھیلائے گئے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے اجتناب کرنے لگے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بہرحال پاک افواج کے آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کا قلع قمع ہوا۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ کتنے ہی دہشت گرد جہنم واصل کیے گئے، گرفتار ہوئے اور جو بچ رہے، انہوں نے یہاں سے فرار میں ہی بہتری سمجھی۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کیا۔ کچھ سال اس حوالے سے صورت حال بہتر رہی۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی کے عفریت پر قابو پاکر دُنیا کو انگشت بدنداں کردیا۔ گو بعض والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے گریز کی روش رہی، تاہم پولیو ٹیموں پر حملوں کی نظیر دکھائی نہ دی۔ اکا دکا واقعات اگر رونما ہوں تو وہ علیحدہ بات ہے۔ بہرحال اس ضمن میں صورت حال قابو میں دکھائی دی۔ ملک میں پچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھاتا نظر آتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز ان کے خاص نشانے پر ہیں۔ متعدد جوانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے قافلوں اور چیک پوسٹوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے جواب میں دہشت گردی پر قابو کے لیے سیکیورٹی فورسز کے مختلف آپریشنز جاری ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ ملک میں گزشتہ روز انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوا تو اس موقع پر باجوڑ میں پولیو کارکنان کی سیکیورٹی پر مامور ٹیم پر دہشت گرد حملہ کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا کے شمالی ضلع باجوڑ میں پولیس گاڑی پر بم حملے میں 5اہلکار شہید اور 22زخمی ہوگئے۔ تحصیل ماموند کے علاقے بیلوٹ فرش میں پولیو سیکیورٹی کے لیے جانے والی پولیس گاڑی کے نزدیک دھماکا ہوا۔ پولیس کے مطابق دھماکے میں 5اہلکار شہید اور 22زخمی ہوگئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی مقامی افراد سیکیورٹی فورسز اور امدادی اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور زخمیوں و لاشوں کو پرائیویٹ گاڑیوں میں اسپتال منتقل کیا۔ ریسکیو 1122کے مطابق زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویش ناک ہے، جس کے باعث اموات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ خار اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ دھماکے میں تمام شہید اور زخمی پولیس اہلکار ہیں، جو پولیو ڈیوٹی کے لیے جارہے تھے کہ گاڑی پر حملہ ہوا۔ دوسری جانب باجوڑ میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر دہشت گرد حملے کی نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ نگراں وزیراعظم نے دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو دعا دی اور ان کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کی۔ انہوں نے حملے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا اور انہیں ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اپنے بیان میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم سیکیورٹی اہلکاروں اور پولیو ورکرز کو سلام پیش کرتی ہے، دہشت گرد کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ملک سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے تک انسداد پولیو مہم بھرپور طریقے سے جاری رہے گی اور عوام پولیو ویکسین کے حوالے سے کسی بھی منفی پروپیگنڈے کے دھوکے میں نہ آئیں، جامعہ الازہر اور دنیا بھر کے علماء کرام پولیو کے انسداد کے پروگرام کی توثیق کر چکے ہیں۔ پولیو کارکنان کی سیکیورٹی پر مامور پولیس ٹیم پر حملہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ اس میں ملوث عناصر کسی رو رعایت کے مستحق نہیں قرار دئیے جاسکتے۔ پوری دُنیا سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے، افسوس وطن عزیز میں یہ اب بھی موجود ہے۔ اس کی وجہ سے پوری دُنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ وطن عزیز کے شہریوں پر سفری پابندیوں کا نفاذ ہوتا ہے۔ پولیو وائرس ہمارے مستقبل کے معماروں کو اپاہج بنا ڈالتا ہے۔ اس کا خاتمہ ازحد ضروری ہے اور اس کی راہ میں رُکاوٹ بننے والے عناصر کسی طور ملک و قوم کے ہمدرد نہیں کہلائے جاسکتے۔ ملک کو پولیو سے مکمل پاک کرنے کے عزم کو مزید تقویت دی جائے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا اس حوالے سے فرمانا بالکل بجا ہے۔ ملک میں پولیو کو شکست دینا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے علماء کرام اور عوام میں اپنا اثر رکھنے والی شخصیات اہم کردار ادا کریں۔ آگہی کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ والدین کو بتایا جائے کہ پانچ سال سے کم عمر ہر بچے کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانا ناگزیر ہے۔ اس کے کوئی سائیڈ افیکٹس نہیں بلکہ یہ اطفال کے تحفظ کے لیے کیا جانے والا حفاظتی اقدام ہے۔ اس کی راہ میں رُکاوٹ بننے والے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہ عناصر ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں۔ ملک میں پولیو کو ہر صورت ختم کیا جائے، اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ اپنے کل کو محفوظ رکھنے کے لیے پولیو مہمات کو متواتر جاری رکھا جائے اور انہیں ہر لحاظ سے موثر بنایا جائے۔ عوام بھی اس ضمن میں اپنا بھرپور تعاون کریں۔
کرونا کے نئے ویرینٹ کے 4کیس رپورٹ
دسمبر 2019ء میں چین میں کرونا ایسا وائرس سامنے آیا، جس نے وہاں تباہی مچاڈالی۔ لاک ڈائون رہا۔ 80ہزار اموات سامنے آئیں۔ اس کے بعد یہ وائرس چین سے نکل کر پوری دُنیا میں پھیلا۔ پوری دُنیا میں کئی مہینوں لاک ڈائون کی کیفیت رہی۔ پاکستان بھی کرونا وائرس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہاں بھی لاکھوں کیس سامنے آئے۔ پورے ملک میں دو ماہ تک لاک ڈائون رہا۔ کافی لوگ جاں بحق بھی ہوئے، تاہم قدرت کا کرم ہوا کہ اُس بڑے پیمانے پر کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے وطن عزیز محفوظ رہا، جیسی امریکا، برطانیہ، برازیل، بھارت، اٹلی، چین اور دُنیا کے دیگر خطوں میں دیکھنے میں آئی تھیں۔ پوری دُنیا کی معیشتیں اس وائرس کے باعث زمین پر آگریں۔ کچھ سال صورت حال بہتر رہی۔ وائرس کا پھیلائو دیکھنے میں نہیں آیا، تاہم اب پھر سے پچھلے کچھ دن سے کرونا کے نئے ویرینٹ کے دُنیا کے مختلف خطوں میں پھیلنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ دُنیا پھر سے خوف و ہراس کی کیفیت میں ہے۔ وطن عزیز میں بھی اس وائرس کے چند کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق محکمہ صحت کے مطابق کرونا کے ایک نئے ویرینٹ ( جے این ون) کے چار کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، جس کے بعد صوبوں کی انتظامیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ترجمان محکمہ صحت کے مطابق نیا ویرینٹ اومیکرون کا ذیلی وائرس ہے جبکہ تمام متاثرہ افراد میں نئے کرونا ویرینٹ کی ہلکی علامات تھیں اور وہ بغیر کسی پیچیدگی کے صحت یاب ہوچکے ہیں۔ وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کے مطابق صورت حال کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے جبکہ بیماریوں کی نگرانی کے لیے بارڈر ہیلتھ سروسز، قومی و صوبائی ہیلتھ اتھارٹیز، لیبز مکمل فعال اور چوکس ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انٹرنیشنل ایئرپورٹس تمام داخلی و خارجی راستوں پر سکریننگ کا موثر نظام موجود ہے، بارڈر ہیلتھ سروسز کا ادارہ انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کی سفارشات پر عمل درآمد کر رہا ہے جب کہ وفاق اور صوبے مکمل الرٹ ہیں۔ کرونا کے نئے ویرینٹ کی روک تھام کے لیے جہاں حکومت کو اپنی ذمے داریوں کو احسن انداز میں ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہیں عوام الناس کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ہر طرح سے احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ باہر نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال کیا جائے۔ ہاتھ بار بار اچھی طرح سے دھوئے جائیں۔ احتیاط کے ذریعے ہی اس وائرس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔





