ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی کی پیش گوئی

ملک عزیز پچھلے برسوں بڑی مشکل حالات سے گزرا ہے۔ اس دوران پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی سے دو چار رہا۔ امریکی ڈالر اسے چاروں شانے چت کرتا دِکھائی دیا۔ محض 5؍6سال کے دوران100 روپے والا ڈالر 330روپے کی حد تک جا پہنچا تھا۔ امریکی کرنسی کی قیمت میں ہوش رُبا اضافے کے باعث غریب عوام پر مہنگائی کے نشتر بُری طرح برس رہے تھے۔ ہر شے کے دام تین، چار گنا بڑھ گئے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ہولناک اضافے دیکھنے میں آئے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تین گنا زائد پر براجمان ہوگئیں۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے بڑھائی گئیں۔ الیکٹرونکس آئٹمز کی قیمتیں بھی تین چار گنا زائد ہوگئیں اور گاڑیوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے جب کہ موٹر سائیکلوں کے نرخوں میں بھی تین، چار گنا اضافے کے سلسلے نظر آئے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بار میں بھی تین، چار گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہاں جنم لینے والا ہر نومولود تین گنا مزید قرض کے بوجھ تلے دب گیا۔ یہ سب سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اُس کی ناقص پالیسیوں سے جہاں ایک طرف معیشت کا بٹہ بیٹھ کر رہ گیا، وہیں ڈالر کے ہوش رُبا حد تک بڑھتے نرخ بھی تباہ کاریاں مچاتے رہے۔ ترقی کا سفر تھم سا گیا۔ غریب عوام کے لیے زیست کسی عذاب سے کم نہیں رہی۔ اُن کے لیے یہ کٹھن آزمائش بن کر رہ گئی۔ ان مشکلات سے تنگ کئی گھرانوں کے سربراہوں نے اپنے بیوی بچوں سمیت خودکشی کی۔ لاتعداد گھرانوں میں فاقوں کی نوبت آئی۔ غربت کی شرح میں ہولناک حد تک اضافہ ہوا۔ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ معیشت کا پہیہ تھم سا گیا۔ ترقی کا سفر رُک سا گیا۔ سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر کام روک دیا گیا یا انتہائی سست کردیا گیا۔ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی دِکھائی دیتی تھی۔ کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ بہت سے بڑے اداروں کو اپنے آپریشنز کو محدود کرنا پڑا۔ بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا۔ لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کی کٹھن آزمائش سے گزرنا پڑا۔ لوگوں کے برسہا برس سے جمے جمائے چھوٹے کاروبار مکمل تباہ ہوکر رہ گئے۔ بڑی تعداد میں لوگ سڑک پر آگئے۔ ڈالر اپنی تباہ کاریاں مچاتا رہا اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اس کے قابو میں آنے کی کوئی صورت حال دِکھائی نہیں دیتی تھی۔ قدرت کو غریبوں پر رحم آیا، حکومتی مدت پوری ہوئی اور نگران حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد اس نے پچھلے مہینوں چند ایسے راست اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا۔ ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا۔ اس آپریشن کو متواتر جاری رکھا گیا۔ اسمگلرز اور ذخیرہ اندوزوں سے بھاری مقدار میں چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء برآمد کی گئیں۔ سونا اور ڈالر سمیت غیر ملکی کرنسی بھی وافر برآمد کیے گئے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کارروائیوں کے نتیجے میں صورت حال نے بہتر سمت اختیار کی۔ ڈالرز اور سونے کی قیمت میں معقول کمی دیکھنے میں آئی۔ ان کی گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی طرح چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں معمولی ہی سہی، کمی ضرور ہوئی۔ اس کریک ڈائون کے ثمرات ہیں کہ ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ روزانہ چند پیسے ہی سہی وہ سستا ہورہا ہے۔ اگلے وقتوں میں ڈالر کی قیمت میں بڑی کامیابی کی نوید سننے میں آرہی ہی۔ پاکستان میں کرنسی مارکیٹ سے وابستہ لوگوں نے آئندہ کچھ عرصے میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی کی پیش گوئی کی ہے۔ روپے کی قدر میں گزشتہ ہفتے اضافہ ہوا اور جمعے کو ڈالر 281.40روپے پر بند ہوا۔ 5ستمبر کو ڈالر 307کی بلند ترین سطح پر تھا لیکن حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے کریک ڈائون کے سبب اس کی قیمت مسلسل کم ہوئی اور اکتوبر میں یہ 277پر آگیا۔ اس کے بعد قیمت میں کچھ اضافہ ہوا اور ڈالر 288تک پہنچا۔ تاہم نومبر کے وسط سے ڈالر کی قیمت میں کمی کا نیا رجحان برقرار ہے۔ مارکیٹ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے رواں ماہ 11تاریخ کو قرض کی اگلی قسط کی منظوری کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں کمی کا امکان ہے اور یہ 277روپے یا اس سے نیچے آسکتی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 70کروڑ ڈالر ملنے والے ہیں، لیکن ڈالر کی قیمت میں کمی کا ایک اور سبب بھی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 15دسمبر کے بعد اب تک 2ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اس اضافے کا سبب صرف اتنا بتایا کہ حکومت کے سرکاری ان فلوز (Inflows)میں اضافہ دیا گیا ہے۔ دو ارب ڈالر آنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر کا حجم 8.2ارب ڈالر ہوگیا جب کہ مجموعی ذخائر 13.2ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی تیزی سے کم ہوا ہے جس کے سبب ڈالر کا اخراج کنٹرول ہوا ہے۔یہ اطلاع موجودہ صورت حال میں خوش گوار ہوا کا تازہ جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی آنے کا مطلب ملک و قوم کے مصائب میں بڑی کمی آنے کے مترادف ہے۔ نگران حکومت تندہی سے ملک و قوم کو درپیش مصائب میں کمی لانے کے لیے کوشاں ہے اور اسے بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ رواں مالی سال کی ابتدائی ششماہی میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس اہداف سے زائد محصولات جمع ہوئی ہیں۔ یہ اطلاع بھی انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے درست سمت بڑھا دئیے گئے ہیں۔ ان شاء اللہ آنے والے وقتوں میں ناصرف ملک و قوم کے حالات بہتر ہوں گے بلکہ خوش حالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز بھی ہوگا۔
مہنگی بجلی کا بوجھ آخر کب ختم ہوگا؟
ملک عزیز میں بجلی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے، صرف بجلی پر ہی کیا موقوف گیس کی قیمتیں بھی غریبوں کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ خطے کے ممالک میں اس وقت سب سے مہنگی بجلی پاکستانی قوم استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ بھارت، چین، ایران، بنگلہ دیش وغیرہ میں بجلی کی سہولت کے لیے وہاں کے عوام کو انتہائی معمولی رقم صَرف کرنا پڑتی ہے جب کہ وطن عزیز میں شہریوں کو ماہانہ بجلی بل کی ادائیگی کے لیے ناصرف اپنی آمدن کا بڑا حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض حالتوں میں تو جمع پونجی بھی بجلی بل کی ادائیگی میں ختم ہوجاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں چھوٹے چھوٹے دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے ماہانہ بجلی کے بل متواتر ارسال ہوتے رہے ہیں۔ افسوس یہاں پر بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع پر توجہ نہیں دی گئی اور مہنگے ذرائع سے بجلی کشید کرنے پر تمام تر دھیان رکھا گیا۔ نامعلوم اس میں کس کے مفادات وابستہ تھے۔ عوام مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور مہنگی بجلی پیدا کرکے غریبوں کو دینے والے اپنی تجوریوں کو دھانوں تک بھرنے میں مصروفِ عمل رہے۔ اب اس دورِ جدید میں بھی وطن عزیز میں مہنگی ذرائع سے بجلی کی پیداوار جاری ہے۔ غریب اس بجلی کو استعمال کرنے کے ہرگز ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔ بجلی بلوں کی ادائیگی اُن کے لیے سوہانِ روح بن چکی ہے۔ اُن کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا عذاب جاری ہے، لیکن افسوس کوئی اس بوجھ میں کمی لانے کی جانب توجہ دینے کو تیار ہی نہیں، بلکہ اس میں اضافے کے سلسلے جاری ہیں۔ غریب عوام پر بجلی کی سہولت کے بدلے بوجھ در بوجھ لادے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے نئی سامنے آنے والی خبر کے مطابق بجلی صارفین پر مسلسل بڑھتی قیمتوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا، ڈسکوز بجلی صارفین کے لیے سیلز ٹیکس سمیت فی یونٹ 50روپے سے زائد تک کے بنیادی ٹیرف کے علاوہ رواں ماہ جنوری میں صرف ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کا بوجھ بڑھ کر 8روپے 56پیسے فی یونٹ بن جائے گا۔ ایک طرف بجلی صارفین پر سیلز ٹیکس سمیت زیادہ سے زیادہ فی یونٹ بنیادی ٹیرف 50روپے سے زائد لاگو ہے تو وہیں اس مہینے جنوری میں الگ سے ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کا بوجھ بڑھ کر 8روپے 56پیسے فی یونٹ بنے گا، جس سے بجلی صارفین کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ رواں ماہ ڈسکوز صارفین پر 3مختلف سہ ماہی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹس کا بوجھ ایک ساتھ پڑ جائے گا۔ صارفین پر جنوری کے بلز میں نومبر 2023کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4روپے 13پیسے فی یونٹ کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب تک عوام مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور رہیں گے۔ اُن کی اشک شوئی کی جانب قدم بڑھائے جائیں۔ بجلی کی پیداوار کے گراں ذرائع سے جان چھڑائی جائے اور سستے ذرائع ( ہوا، سورج، پانی) پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ ان سے زیادہ سے زیادہ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ آبی ذخائر زیادہ سے زیادہ تعمیر کیے جائیں، اس معاملے میں چھوٹے بڑے ڈیمز کی بحث میں نہ پڑا جائے۔ اس سے ناصرف آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا بلکہ وافر بجلی کا حصول بھی ممکن ہوگا۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم غریب عوام کے مفاد میں بہترین ثابت ہوں گے۔





