بجلی لوڈشیڈنگ کا عذاب، آخر کب تک؟

ملک عزیز ڈیڑھ عشرے سے زائد عرصے تک توانائی کے بدترین بحران کی زد میں رہا ہے۔ موسم گرما عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا تھا۔ دن ہو یا رات لوڈشیڈنگ کے سلسلے دراز رہتے تھے۔ ایک طرف سورج آگ برسا رہا ہوتا تو دوسری جانب گھروں میں بجلی نہ ہونے سے لوگ جل بھن رہے ہوتے تھے۔ لوگوں کے لیے روزگار کمانا مشکل ہوگیا تھا، بدترین لوڈشیڈنگ کے باعث اپنا دال دلیہ نہیں چلا پاتے تھے۔ ملکی انڈسٹریز پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ صنعتوں کا پہیہ اس سے بے پناہ متاثر ہوا۔ اس سب کی وجہ سابق حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں تھیں۔ بجلی بحران کی صورت حال خاصے پہلے سے سر اُٹھارہی تھی، وہ بروقت اُس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے سے قاصر رہے۔ اس حوالے سے غفلت اور لاپروائی کے سلسلے رہے۔ مہذب دُنیا میں جب کوئی مسئلہ سر اُٹھارہا ہو تو اُس کو حل کرنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ بروقت اقدامات کی بدولت مسئلہ سر اُٹھانے سے پہلے ہی حل ہوجائے، لیکن افسوس ہمارے ہاں اس کے برعکس روش اختیار کی جاتی ہے، جو خلق خدا کے مصائب اور مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ گو سابق حکمراں دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا ہے، لیکن حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو آج تک ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی شدت میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن قوم کو اس سے چھٹکارا نہیں مل سکا ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو ہے کہ بجلی بحران کے حل کے ضمن میں توانائی کی پیداوار کے سستے ذرائع کے بجائے مہنگے ذریعوں پر انحصار کی پالیسی اختیار کی گئی، جس کی وجہ سے قوم کو خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی میسر ہے، جو بلاتعطل اُنہیں مل بھی نہیں پاتی اور وہ اتنی گراں بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جس کے ماہانہ بل اُن کی آمدن سے بھی بعض اوقات تجاوز کرجاتے ہیں۔ چین، بھارت، ایران، بنگلادیش وغیرہ میں بجلی انتہائی سستی ہے اور وہاں کے عوام کو اس سہولت کے بدلے اپنے آمدن کا معمولی حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے جب کہ وطن عزیز کے غریب عوام کو چھوٹے چھوٹے دو دو کمروں کے گھروں کے ماہانہ بل بھرنے کے لیے اپنی جمع پونجی تک وار دینی پڑتی ہے۔ پورے مہینے اُن کے ہاں لالے اور نالے ہوتے ہیں کہ غریب عوام اتنی گراں بجلی کے متحمل ہرگز نہیں ہوسکتے جب کہ وہ اُنہیں بلاتعطل دستیاب بھی نہیں۔ گرمی میں تو صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ شارٹ فال بے پناہ بڑھا ہوتا ہے، لیکن اس بار تو سرما میں بھی بجلی شارٹ فال میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پورے ملک میں طویل لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ حالانکہ سرد موسم میں بجلی کی کھپت خاصی کم ہوجاتی ہے۔ جب سردی میں لوڈشیڈنگ کا یہ عالم ہے تو موسم گرما میں کیا حالات ہوں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی کی پیداوار میں کمی کے باعث موسم سرما میں بھی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کردیا، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو روزانہ 6گھنٹے لوڈشیڈنگ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ بجلی کا شارٹ فال 4ہزار میگاواٹ ہے، دریائوں میں پانی کی کمی اور بھل صفائی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں 90فیصد کمی آئی۔ ذرائع کے مطابق تربیلا ڈیم سے بجلی کی پیداوار صرف 5 سو میگاواٹ رہ گئی، بجلی کی مجموعی پیداوار 9ہزار میگاواٹ جب کہ طلب ساڑھے 13ہزار میگاواٹ ہے۔بجلی کی پیداوار میں کمی کے باعث لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ ہوگیا، لیسکو کا شارٹ فال ایک ہزار میگاواٹ ہوگیا، لاہور میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 6گھنٹے تک چلا گیا۔ لیسکو حکام کے مطابق سردی کی وجہ سے لیسکو کی روزانہ طلب 2600میگاواٹ ہے تاہم لیسکو کو صرف 1600میگاواٹ بجلی مل رہی ہے، دیہات میں لوڈشیڈنگ 12 گھنٹے سے تجاوز کرگئی۔ ذرائع کے مطابق آئندہ کئی روز تک کمرشل صنعتی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اسلام آباد میں بھی بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چھ گھنٹے سے تجاوز کرگیا ہے۔ سندھ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ شہر قائد میں بعض علاقوں میں آٹھ نو گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے جبکہ کچھ علاقوں میں چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ عوام لوڈشیڈنگ سے تنگ دکھائی دیتے ہیں۔ سردی کے موسم میں لوڈشیڈنگ کا یہ سلسلہ موسم گرما کے اس حوالے سے ہولناک ہونے کی پیشگی اطلاع دے رہا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں حالات کے مطابق چیلنجز سے نمٹنے کی روش اختیار نہ کی جا سکی، جو مشکلات میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف توانائی ہی نہیں ہر معاملے میں یہی صورت حال ہے۔ سستی اور وافر بجلی کا حصول ممکن ہے۔ بس اس کے لیے ملک و قوم کے مفاد میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے فی الفور جان چھڑائی جائے اور تمام تر توجہ بجلی کے حصول کے سستے ذرائع پر دی جائے۔ سورج، ہوا اور پانی سے بجلی کی پیداوار حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں۔ ان کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، ملک و قوم کے مفاد میں زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ اس سے پانی کی قلت کے دیرینہ مسئلے سے نجات ملنے کے ساتھ وافر بجلی میسر آسکے گی۔ عوام کے مفاد میں سنجیدگی اور شفافیت سے اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج دے سکیں گے۔





