قومی سلامتی پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا

افغانستان پر امریکا کے حملہ آور ہونے کے بعد پاکستان میں بدترین دہشت گردی در آئی۔ روزانہ ہی ملک بھر کے مختلف حصّوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے تھے، جن میں درجنوں شہری جاں بحق ہوجاتے تھے۔ ملک کا کوئی گوشہ دہشت گردوں سے محفوظ نہ تھا، وہ جہاں چاہتے اپنی مذموم کارروائیاں کر گزرتے تھے۔ ملک ڈیڑھ عشرے تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ شہریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو روزگار کے لیے گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ عجب عالم تھا، فرد کو اپنے سائے سے بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔ دہشت کی وحشت اکثر عوام پر طاری رہتی تھی۔ عبادت گاہیں محفوظ تھیں نہ عوامی مقامات، تفریح گاہیں دہشت گردی کی کارروائیوں سے بچی ہوئی تھیں نہ مزارات، سیاسی جلسوں کو تحفظ حاصل تھا نہ دینی تقریبات کو سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں 150معصوم بچوں اور اساتذہ کی شہادت کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ کتنے ہی دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا گیا، کتنے ہی گرفتار ہوئے، جو بچ رہے اُنہوں نے فرار میں عافیت جانی۔ تمام علاقوں کو ان سے خالی کرالیا گیا۔ ملک میں کچھ سال امن و امان کی صورت حال بہتر رہی۔ اب پھر سے پچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے ملک میں دہشت گردی کا عفریت سر اُٹھاتا نظر آرہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اُن کے قافلوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر حملوں کے سلسلے ہیں۔ ہمارے کئی جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے آپریشنز جاری ہیں اور ان میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ کافی دہشت گرد مارے جاچکے، گرفتار کیے جاچکے، متعدد علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے کلیئر کرایا جاچکا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے در آنے کی وجہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اکثر دہشت گردی کے واقعات میں ان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ سابق حکومتیں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کے حوالے سے بیانات تک محدود رہیں۔ اس حوالے سے عملی اقدام موجودہ نگراں حکومت نے اُٹھایا، جسے محب وطن عوام نے سراہا ہے۔ اس حوالے سے ابتدا میں انہیں رضاکارانہ طور پر پاکستان سے اپنے ملک لوٹ جانے کے لیے 31اکتوبر کی ڈیڈلائن دی گئی۔ اس کے بعد سے ملک بھر سے غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو تلاش کرکے ہولڈنگ مراکز منتقل کیا جارہا ہے، جہاں قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ان کی ان کے ملکوں کو باعزت واپسی یقینی بنائی جارہی ہے۔ اب تک پانچ لاکھ سے زائد غیر قانونی پناہ گزین باعزت طریقے سے اپنے ممالک واپس جاچکے ہیں۔ ہولڈنگ مراکز میں عارضی قیام سمیت کھانے، پینے سمیت تمام ضروری سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے۔ تمام غیر قانونی پناہ گزینوں کے اپنے ملکوں کو لوٹ جانے کی صورت میں ناصرف ملکی معیشت اور وسائل پر سے بھاری بھر کم بوجھ کم ہوگا بلکہ امن و امان کی صورت حال بھی بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ دوسری جانب دیکھا جائے غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی اپنے ملکوں کو واپسی کو بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ عناصر اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس قسم کی بیان بازی میں مصروفِ عمل ہیں، اس امر کو کسی طور مناسب نہیں گردانا جاسکتا۔ تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی اپنے ملکوں کو باعزت واپسی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے اور اس کے انتہائی مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ اسی تناظر میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی ملک و قوم کے مفاد میں اپنے خیالات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان تاریخ کے دوراہے پر ہوتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں غیر دستاویزی افراد کو ٹھہرا کر اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتا، ہمارا حتمی مقصد ایک محفوظ، زیادہ پُرامن اور خوشحال پاکستان کی تشکیل ہے جس سے ہمارے اپنے لوگوں، خطے اور دنیا کے لیے وسیع تر فوائد ہوں۔ وزیراعظم نے دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ دنیا بھر کی حکومتیں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی مواقع سے منسلک بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے ایک نئے دور کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت کا ہے، گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران چار سے پانچ ملین کے درمیان تارکین وطن آچکے، جو آئر لینڈ کی آبادی کے برابر ہیں۔ وزیراعظم نے تحریر کیا کہ 1951ء کے مہاجرین کے کنونشن ( اور اس کے 1967ء کے پروٹوکول) پر دستخط نہ کرنے کے باوجود ہم نے فراخدلی سے پناہ گزینوں کو جگہ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں ہے اور یہ ملک اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی ذمے داریوں کو پورا کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے طویل عرصہ جتنے لوگوں کو جگہ دے سکتے تھے انہیں یہاں رکھنے کیلئے بہت محنت کی جبکہ جن کا یہاں رہنے کا کوئی حق بھی نہیں تھا، ان کو بھی رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کیلئے مناسب موقع دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے متعدد مواقع کے باوجود اور غیر دستاویزی رہنے والوں کو رجسٹر کرنے کے لیے متعدد حکومتی کوششوں کے باوجود ایک قابل ذکر تعداد نے مستقل طور پر اپنی حیثیت کو باقاعدہ بنانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں پاکستان نے بہت سے محنتی اور قانون کی پاسداری کرنے والے تارکین وطن سے فائدہ اٹھایا، وہیں اس بھاری تعداد میں آمد کی مجموعی سماجی، اقتصادی اور سیکیورٹی کی بڑی قیمت چکائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، وہ مجرمانہ انڈرورلڈ کے استحصال کا بھی شکار ہیں، ان کے خطے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں سے روابط بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2021سے کم از کم 16افغان شہریوں نے پاکستان کے اندر خودکش حملے کیے جبکہ 65دہشت گرد مارے گئے ہیں، سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے دہشت گردوں خاص طور پر سرحدی علاقے میں ان کی شناخت افغانی کے طور پر کی گئی۔ جب بھی ہم نے یہ بات عبوری افغان حکومت کے ساتھ اٹھائی تو انہوں نے ہمیں اپنے اندر کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیا، ہم نے آخرکار اپنے گھر کو ترتیب دینے کے لیے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے، قومی سلامتی پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، اس تمام تر تناظر میں غیر دستاویزی تارکین وطن باشندوں کی اُن کے ممالک کو واپسی حکومت کا بالکل درست اور صائب فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی اپنے ملکوں کو واپسی تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھا جائے، تاکہ ملک و معاشرے میں ان کے انخلا کے باعث صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکے۔
بیرونی سرمایہ کاری میں 21فیصد اضافہ
پچھلے چند سال کے دوران ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں انتہائی بڑے پیمانے پر کمی آئی تھی۔ پچھلے پانچ چھ سال کے دوران ناقص پالیسیوں کے باعث صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ اس کی وجہ سابق حکومت کی ناقص حکمت عملی تھی۔ ملک میں حالات ناموافق کیے گئے۔ معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیے گئے۔ معیشت کا پہیہ جام کیا گیا۔ صنعت و حرفت کو نقصان پہنچایا گیا۔ کاروبار کے مواقع سمیٹے گئے۔ اس کے باعث ناصرف چھوٹے بڑے کاروباروں کو ہولناک حد تک نقصانات پہنچے بلکہ بے روزگاروں کی تعداد بھی ہوش رُبا حد تک بڑھ گئی۔ دوسری جانب مہنگائی کے وار غریب عوام پر بُری طرح جاری رہے۔ غریب دُہائیاں دیتے رہے، لیکن اُن کی اشک شوئی کی سبیل نہ ہوسکی۔ ناموافق صورت حال کے باعث بڑی تعداد میں بیرونی سرمایہ کار یہاں سے اپنا سرمایہ سمیٹ کر دوسرے ممالک کا رُخ کررہے ہیں۔ حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ ملک میں ڈالر کی قیمت بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی تھی۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر براجمان تھے۔ گرانی بھی ہولناک حد تک تمام ریکارڈ توڑ چکی تھی۔ حکومتی مدت پوری ہوئی تو نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ نگراں حکومت نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں، جن کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد بالواسطہ اور بلاواسطہ ان سے مستفید ہورہی ہے۔ نگراں حکومت کے اقدامات کے باعث وسیع پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری بھی پاکستان آرہی ہے۔ اس حوالے سے متحدہ عرب امارات اور کویت سے اہم معاہدے گزشتہ دنوں ہی ہوئے ہیں۔اس حوالے سے ایک خوش کُن اطلاع یہ آئی ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال کے ابتدائی 5مہینوں میں بیرونی سرمایہ کاری 21 فیصد بڑھی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں سال نومبر میں ملک میں 15 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی۔ ملکی نجی شعبے میں 15 کروڑ 89 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی اور سرکاری شعبے سے 30 لاکھ ڈالر نکالے گئے۔ نومبر میں براہ راست سرمایہ کاری 13 کروڑ 14 لاکھ ڈالر رہی جب کہ پورٹ فولیو سرمایہ کاری 2 کروڑ 75 لاکھ ڈالر رہی۔ نومبر کے اعداد شامل کرکے 5 مہینوں میں 69 کروڑ 48 لاکھ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی۔ جولائی سے نومبر تک ملکی نجی شعبے میں 69 کروڑ 45لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، جس میں 65 کروڑ 61 لاکھ ڈالر براہ راست جبکہ 3 کروڑ 84 لاکھ پورٹ فولیو سرمایہ کاری رہی۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے مطابق 6 ماہ میں پہلی بار پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ سر پلس ہوگیا۔ یہ اعداد و شمار موجودہ صورت حال میں خوش گوار ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہیں۔ ملک میں مزید بیرونی سرمایہ کاری کی آمد کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری آنے سے ملک مزید تیزی سے ترقی کی جانب سفر جاری رکھ سکے گا۔





