Editorial

3ماہ میں پٹرولیم قیمتوں میں بڑی کمی کے باوجود عوام حقیقی ریلیف سے محروم

پاکستان میں 6سال پہلے معیشت کی صورت حال خاصی بہتر تھی۔ کاروباری لوگوں کے حالات بہتر تھے۔ روزگار کے حوالے سے بھی حالات موافق تھے۔ مہنگائی ضرور تھی، لیکن اس میں وہ ہولناکی نہ تھی جو پچھلے برسوں میں در آئی ہے۔ عوام کی حالت خاصی بہتر تھی۔ پھر نامعلوم معیشت کے ساتھ کیا کھلواڑ کیے گئے کہ اُس کا پہیہ تھم سا گیا۔ پاکستانی روپے کو تاریخ کی بدترین توقیری سے دوچار کیا گیا۔ ڈالر اُسے ہر بار چاروں شانے چت کرتا رہا۔ امریکی کرنسی کے ریٹ انتہائی ہوش رُبا حد تک بڑھتے رہے۔ کوئی روکنے والا نہ تھا۔ اسی باعث مہنگائی کے بدترین نشتر قوم پر برستے رہے۔ ہر شے کے دام مائونٹ ایورسٹ سر کرتے دِکھائی دئیے۔ اشیاء ضروریہ سے لے کر الیکٹرانکس آئٹمز کے دام پچھلے پانچ چھ سال میں 3سے 4گنا بڑھ چکے ہیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر براجمان ہیں۔ ایک موقع پر پٹرول اور ڈیزل کے دام بھی 330کی سطح کو عبور کر چکے تھے۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور عوام کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک روا رکھا جارہا تھا۔ عوام چیختے چلاّتے، داد رسی کے لیے دُہائی دیتے تھے، کوئی مداوا کرنے کو تیار نہ تھا۔ نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ احسن اقدامات کا آغاز کیا، جن کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ نگراں مرکزی حکومت نے پچھلے مہینوں ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف سخت کریک ڈائون شروع کیا۔ یہ کارروائیاں ملک بھر میں بلاامتیاز جاری رکھی گئیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں سے انتہائی وافر ڈالرز و دیگر بیرونی کرنسی اور سونا برآمد کیے گئے۔ اسی طرح چینی اور گندم بھی بڑی مقدار میں ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں سے برآمد کی جاتی رہیں۔ کھاد بھی انتہائی بڑے پیمانے پر ملزمان سے پکڑی گئی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ڈالر جو انتہائی اونچی اُڑان اُڑ رہا تھا۔ اُس کے پر کاٹنے میں مدد ملی۔ حکومت نے قوم کو 40روپے فی لٹر پٹرول میں کمی کرکے تاریخی اقدام کیا۔ کوکنگ آئل، گھی، چینی اور آٹے کے دام بھی کچھ کم ہوئے۔ عوام کی کچھ حد تک اشک شوئی ممکن ہوئی۔ اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف متواتر کارروائیاں جاری رکھی گئیں۔ عالمی منڈی میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی آئی۔ انہی کے طفیل حکومت اگلے دو مہینوں میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ممکن بنا سکی۔ تین ماہ میں فی لٹر 64روپے سے زائد پٹرول کی قیمت میں کمی کی گئی ہے۔ نگران حکومت نے گزشتہ تین ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت میں 64.04روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 52.99روپے فی لٹر کمی کی ہے۔ وزارت توانائی و پٹرولیم کی جانب سے سرکاری سوشل میڈیا اکائونٹ پر شیئر کیے گئے چارٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکتوبر میں ایکس ڈپو پر پٹرول کی قیمت 331روپے 38پیسے فی لٹر تھی اور اب رواں ماہ میں قیمت کم ہوکر 267روپے 34 پیسے فی یٹر پر آگئی ہے، جس سے صارفین براہ راست مستفید ہورہے ہیں اور ایندھن کی اخراجات کا مالی بوجھ کم ہوا ہے۔ اسی طرح اکتوبر میں ڈیزل کی قیمت 329.18روپے فی لٹر تھی جو اَب کم ہوکر 276.19روپے فی لٹر پر آگئی ہے، جس سے صارفین کو 52.99روپے فی لٹر کا فائدہ ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے صارفین پر پڑنے والے مالی اثرات میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس کمی کے معیشت کے مختلف شعبوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، جس سے صارفین اور کاروباری اداروں کو یکساں راحت ملے گی۔ نگراں حکومت کے اقدامات ہر لحاظ سے قابل ستائش و تحسین ہیں، تاہم ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کارروائیوں میں اب وہ شدّت محسوس نہیں ہورہی، جو پچھلے مہینوں تھی، کارروائیاں ضرور ہورہی ہیں، مگر چند ایک ہی، اسی وجہ سے اب آٹے اور چینی کی قیمت میں اضافے کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہیں، ملک میں یوریا کے بدترین بحران کی صورت حال ہے، من مانی قیمتوں پر کھاد فروخت کی جارہی ہے، اس کی بلیک مارکیٹنگ نا صرف جاری ہے بلکہ غریب کاشت کاروں کی جیبوں پر بُری طریقے سے نقب لگائی جارہی ہے۔ غریب کسان اس پر ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات میں کی جانے والی کمی کے تناسب سے مہنگائی میں کمی نہیں آسکی ہے۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں پھر سے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون میں سختی لائی جائے۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کارروائیوں کو ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خاتمے تک جاری رکھا جائے۔ انہیں کسی طور بخشا نہ جائے، نشانِ عبرت بنایا جائے۔ ملک و قوم کے مصائب میں کمی لانے کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔ نگراں حکومت کی جانب سے اگر عوام کی اشک شوئی کے لیے مزید اقدامات کرلیے جائیں تو یہ قوم کی بڑی خدمت شمار ہوگی۔
پرتھ ٹیسٹ میں پاکستان کو شکست
پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت میزبان ملک سے ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے آسٹریلیا میں موجود ہے۔ اس سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں اُسے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ پاکستان کے تمام بلے باز یکسر ناکام ثابت ہوئے۔ کوئی بھی بڑی اننگز کھیل نہ سکا۔ میزبان ٹیم کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم محض 89رنز بناکر آئوٹ ہوگئی۔ پرتھ میں ہونے والے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پہلے ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 360رنز سے شکست دے کر سیریز میں ایک، صفر کی برتری حاصل کرلی، پرتھ میں کھیلے جانے والے پہلے میچ کی دوسری اننگز میں ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم محض 89رنز پر آئوٹ ہوگئی۔ ٹیسٹ میچ کے چوتھے دن دوسرے سیشن میں آسٹریلیا نے اپنی دوسری اننگز 233رنز 5کھلاڑی آئوٹ پر ڈیکلیئر کی۔ جواب میں قومی ٹیم 89رنز ہی بناسکی اور آئوٹ ہوگئی۔ دوسری اننگز کے آغاز پر ہی اوپنر عبداللہ شفیق اور کپتان شان مسعود 2، 2رنز بناکر آئوٹ ہوئے۔ پاکستان کو تیسرا نقصان امام الحق کی صورت اٹھانا پڑا، جنہوں نے 10رنز بنائے، بابر اعظم 14، سرفراز احمد 4، آغا سلمان اور فہیم اشرف 5، 5، عامر جمال 4اور خرم شہزاد صفر پر آئوٹ ہوئے۔ آسٹریلیا کی جانب سے مچل اسٹارک اور جوش ہیزل ووڈ نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں جب کہ نیتھن لائن نے دو اور پیٹ کمنز نے ایک وکٹ لی۔ دن کے آغاز پر آسٹریلوی بیٹر اسٹیون سمتھ 43 اور عثمان خواجہ نے34رنز کے ساتھ دوبارہ کھیلنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر میں فاسٹ بولر خرم شہزاد نے 87رنز پر پاکستان کے لیے تیسری وکٹ حاصل کی۔ خرم شہزاد نے 45رنز پر اسٹیون اسمتھ کو ایل بی ڈبلیو آئوٹ کیا۔ آسٹریلیا کی چوتھی وکٹ 107رنز پر گری جب ٹریوس ہیڈ 14رنز بنا کر عامر جمال کی گیند پر کیچ آئوٹ ہوئے۔ عثمان خواجہ90رنز پر فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر آئوٹ ہوئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی اس ہار پر شائقین میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔ دورۂ آسٹریلیا کبھی بھی پاکستان ٹیم کے لیے آسان ثابت نہیں ہوا۔ وہاں ٹیسٹ سیریز میں اُس کے لیے فتح سمیٹنا جوئے شیر لانی سے کسی طور کم نہیں۔ پچھلے دو عشروں سے یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ جب بھی پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں میزبان ٹیم اُس کے لیے سخت ترین حریف ثابت ہوئی ہے اور اُس نے کبھی بھی اُسے خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہاں البتہ پچھلے دورے میں ایک مقابلے میں اسد شفیق اور یاسر شاہ آسٹریلیا کے گلے کی ہڈی بن گئے تھے اور ناممکن ہدف کو قریب لے آئے تھے، تاہم بدقسمتی سے پاکستان فتح سمیٹ نہ سکی تھی۔ پاکستان ٹیم کو سیریز میں واپسی کے لیے کڑی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ بیٹنگ اور فیلڈنگ کی خامیوں پر قابو پایا جائے۔ پرتھ ٹیسٹ میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے۔ بولنگ اور بیٹنگ میں بہتری لائی جائے۔ آسٹریلیا کو اُس کے دیس میں ہرانا ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ ماضی میں پاکستان کئی بار اُسے شکستوں کا ذائقہ چکھا چکا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ سیریز کے اگلے مقابلوں میں تمام کھلاڑی سخت محنت کریں اور میزبان کے خلاف فتح سمیٹنے کی کوشش کریں، ان شاء اللہ کامیابی پاکستان کا مقدر بنے گی۔

جواب دیں

Back to top button