ایوارڈز کی لوٹ سیل

صفد ر علی حیدری
کتب بینی کا رواج اگرچہ اب خاصا کم ہو گیا ہے مگر کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ لکھاری اپنے پلے لگاتے اور کتاب چھپواتے ہیں کہ ایسے پبلشر اب قبروں میں جا سوئے کہ جو اہتمام سے خود کتاب چھاپتے اور اسے فروخت کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔ آج کل تو صرف ادیب صاحب کتاب ہو سکتا ہے یا بن سکتا ہے کہ جس کی جیب میں ہزاروں لاکھوں روپے اضافی پڑے ہوں۔ اس کے بعد اپنی کتب کو اعزازی طور پر بھیجنے کا مرحلہ آتا ہے جس پر مزید رقم خرچ ہوتی ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ ان ساتھیوں سے پوچھنے کا ہوتا ہے کہ کتاب آپ کو ملی یا راستے میں کسی کی نیت بدل گئی۔ اکثر ساتھی یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ میں آپ کو میسج کرنے ہی والا تھا ۔ کچھ کو یاد ’’ بھول ‘‘ جاتی ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ ان سے کتاب پر رائے لینے کا آتا ہے۔ جو اس سلسلے کا سب سے دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔ صاحب کتاب آٹے میں سے نمک کے برابر ہی رائے اور تبصرے لکھوا پاتا ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کتاب اعزازی طور پر پیش کرنا یا مانگنا کس طرز کی کتاب دوستی ہے ؟ یہ بھی علم نہیں کہ اس بدعت کی شروعات کس نے کی ؟ دنیا کی کون سی ایسی چیز ہے جو جس کی ہے وہ پیسے لگائے اور جس کی نہیں ہے وہ مفت طلب کرے ۔ کتنا اچھا ہو کہ لوگ اعزازی کتاب لینے کی بجائے کتاب خرید کر پڑھنے کا اعزاز پائیں لیکن ۔۔۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اب ایسا تو کم از کم ہونا چاہیے اور جائز بھی معلوم ہوتا ہے کہ صاحبان کتاب اپنی کتاب کا تبادلہ کر لیا کریں۔
باقی باتیں پھر کبھی آج تو ہمیں ایوارڈز کی بات کرنی ہے جو کہ ایک دھندہ بن چکا ہے۔ آپ کو آئے روز سماجی میڈیا پر ایسا اشتہار دیکھنے کو ضرور ملتا ہو گا
اپنی تین تین کتابیں ہمیں ارسال کریں۔ ہم آپ کو ایک پروقار تقریب میں اعزاز سے نوازیں گے۔ یہ اعزاز اور اعزازی کتاب مجھے ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اگر میں صاحب کتاب ہوں تو پھر مجھے اس کا ثبوت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ میں صاحب کتاب ہوں۔ اگر آپ لاعلم بھی ہیں تو آپ کتاب کا ٹائٹل مجھ سے مانگ کر اپنی تسلی کر سکتے ہیں ( ویسے ہم نے کتاب کا اعزاز ان لوگوں کو بھی ملتے دیکھا ہے جن کی کتاب تو کیا کتابچہ بھی کبھی شائع نہیں ہوا )چلیں اگر انہوں نے اگر کوئی ذاتی لائبریری بنا بھی رکھی ہے تو ایک کتاب کا تقاضا کرنا تو پھر بھی کسی حد تک معقول بات ہو سکتی ہے ۔ مگر تین تین چار چار کتابوں کا تقاضا کیا ظلم نہیں ہے ۔
آپ نے چوں کہ سبھی کو ایوارڈ دینا ہے تو اتنی زیادہ کتابوں کا مطالبہ کیا ناانصافی نہیں ہے ؟
ایوارڈز کا دینا اگر حوصلہ افزائی کے لیے ہے اور آپ نے سب صاحبان کتاب کو اعزاز سے نوازنا ہے تو کسی بھی صاحب کتاب ادیب سے زیادہ سے زیادہ ایک کتاب طلب کی جائے ، اسے تقریب میں شرکت کا ٹے اے ڈے اے دیا جائے ۔ سب کے سامنے اسے بلا کر اعزاز دیا جائے اور دوپہر کا کھانا کھلا کر ان کو عزت سے رخصت کیا جائے۔
دور دراز علاقوں میں رہنے والوں ادباء کا لاہور، فیصل آباد، کراچی، گوجرانوالہ آنا کوئی آسان کام نہیں کہ وہ بائیک نکالیں اور آدھے گھنٹے بعد تقریب میں پہنچ جائیں ۔
ایوارڈ کے حوالے سے ایک حیران کن امر یہ ہے کہ پہلے چند ایک مخصوص تقاریب ہوا کرتی تھیں مگر اب تو یار لوگوں نے اسے دھندہ ہی بنا لیا ہے ، جس میں مندا بالکل بھی نہیں ہے۔ اب تو ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی چھوٹے شہروں میں بھی یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
اب صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر ان ایوارڈز کی لوٹ سیل لگانے والوں کو ملتا کیا ہے اور وہ کیوں لوکوں کو مدعو کرتے انہیں اعزاز اور سرٹیفکیٹ دیتے اور کھانا پیش کرتے ہیں ۔
اگر تین کتابوں کی قیمت دیکھی جائے تو دو ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔ اگر کوئی ادیب کسی مضافاتی علاقے سے کسی بڑے شہر میں منعقدہ تقریب میں آتا ہے تو کم و بیش پانچ ہزار کرایہ کی مد میں اٹھتا ہے۔ جب وہ رات بھر کا تھکا ہارا مسافر اس تقریب میں پہنچتا ہے تو سارا دن اس کا تقریب میں اس انتظار میں گزر جاتا ہے کہ کب اس کو اعزاز ملے گا اور کب وہ وہاں سے رخصت ہو گا۔ کیوں کہ اگلی رات بھی اس کی سفر میں بسر ہونی ہوتی ہے اور اگلے دن اسے کام دھندہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس سوال یہ کہ سات آٹھ ہزار لگا کر اسے ملتا کیا ہے۔ ایک سرٹیفکیٹ اور ایک ایوارڈ۔ جس کی قیمت اس کی سرمایہ کاری سے کہیں کم ہوتی ہے۔ مانا اعزاز ایک بیش قیمت چیز ہوتا ہے۔ مگر اس پر اٹھنے والے اخراجات دیکھ کر اس کی قدر و منزلت ویسے ہی پھیکی پڑ جاتی ہے۔ گویا یہ کسی ادیب کے لیے بہر صورت گھاٹے کا سودا ہے۔ ایوارڈ کی قیمت کو چھوڑ کر اگر اس کی اہمیت کو دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایوارڈ کس حیثیت کا حامل ہے۔ اس ایوارڈ کو پیش کرنے والے خود کس قدر و منزلت کے حامل ہیں۔ اس لحاظ سے پرکھیں تو ایوارڈ بس ایک شیشے کا ٹکڑا ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب ایسے ٹکڑے اکٹھے کر لینا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اور بڑے شہروں کے لیے ایسا کرنا تو اور بھی عام سی بات لگتی ہے کہ ان تقاریب میں ان کا جانا کچھ ایسی مشکل بات بھی نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی جیب پر بوجھ نہیں پڑتا۔ ایک دن میں وہ تقریب شرکت کر کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دن تفریح میں گزر جاتا ہے اور دوستوں سے ملنا ملانا بھی ہو جاتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تقریب کے منتظمین کو کیا ملتا ہے۔ تو سیدھی سی بات ہے سب سے زیادہ فائدہ تو انہی کا ہوتا ہے ۔ پچاس ہزار خرچ کرتے ہیں اور پانچ لاکھ کی کتابیں اکٹھی کر لیتے ہیں۔ واہ واہ الگ ہوتی ہے۔ ادب کی خدمت کا اعزاز بھی بخوبی پا لیتے ہیں۔
ہماری اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے۔ ان میں سے کئی لوگ ہمارے ادبی دوست ہیں۔ ہم خود بھی ایسے کئی اعزازت اپنے نام کر چکے ہیں اور ان کی پوسٹ بنا کر داد و تحسین بھی سمیٹ چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی تقاریب کا اہتمام حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے جو کہ نہیں ہوتا سو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمارے اور آپ جیسے سفید پوش ادیب ہی آگے آتے ہیں ۔
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کا مقصد کتابیں بٹورنا ہو ۔ کئی لوگ اچھا کام بھی کر رہے ہیں (( کسی ایک کا نام لینا بہتر نہ ہو گا کہ ہم نے نہ منفی کرداروں کا نام لیا ہے اور مثبت کرداروں کا )
ان میں سے بعضوں کا مقصود یقینا ادباء کی حوصلہ افزائی ہی ہے مگر ۔۔۔ اعتراض ہمیں ہے تو اس پر کہ کتابیں کیوں لی جاتی ہیں اور وہ بھی پوری تین تین۔ پھر دور سے آنے والے مہمانوں کو آنے جانے کا خرچ کیوں نہیں دیا جاتا ( ایک آدھ جگہ ہر صاحب کتاب کو پیسوں کا لفافہ ضرور دیا جاتا ہے )
اگر ادباء کی حوصلہ افزائی ہی مقصود ہے تو یہ بھی دیکھا جائے کہ دور دراز سے آنے والوں لوگوں کو سفر کی مشکلات کے ساتھ ساتھ رقم بھی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صاحب کتاب کو کتاب کے ہمراہ بلوایا جائے۔ ایوارڈ سے نوازا جائے اور پھر پیسوں کا لفافہ تھما کر تالیاں بجاتے ہوئے رخصت کیا جائے۔
ان تقاریب میں ہم نے کئی ایسے عمر رسیدہ افراد کو دیکھا ہے جو دور دراز علاقوں سے اس ایوارڈ میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ایوارڈ کی واقعی بڑا بیش قیمت ہے ۔ شروع میں یہی لگتا تھا مگر اب ۔۔۔
ادبا کی حوصلہ افزائی کے ایوارڈ کی تقاریب منعقد کیجیے ضرور کیجیے مگر ادبا کو عزت بھی دیجیے۔ ان کو آنے جانے کا کرایہ بھی دیجیئے اور یہ کہ کتابوں کو جمع کرنا کی ہوس ترک کیجیے۔ اور ہمارے ذمے صاف صاف پہنچا دیتا ہے۔
ہم تو نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آخر میں ایک افسانچہ کتاب دوست کے نام ۔۔۔
کتاب دوست افسانچہ ۔۔۔
اسے کتابوں سے محبت تھی اور کتابیں جمع کرنے کا جنون۔ اس کے پاس بہت سی کتابیں تھیں جو اس نے مصنفین کے ان باکس جا کر منگوائی تھیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کو رکھنے کی مناسب جگہ نہ تھی۔ کتابوں کو بکھرا پڑا دیکھ کر اس کا دل بہت کڑھتا تھا۔ مالی حالات بھی اس کے کچھ ایسے نہ تھے کہ وہ کوئی اچھی سی الماری خرید سکتا۔
پھر ایک دوست کے مشورے سے اس نے کمیٹی ڈال لی۔ چند ماہ بعد جب اس کی کمیٹی نکلی تو اس نے ایک خوب صورت سی الماری خریدی اور بڑی پیار سے اپنی تمام کتب اس میں سجا دیں۔ پہلے جگہ کم پڑتی تھی اور اب کتابیں۔ اس نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا۔ اس نے فیس بک پر پوسٹ لگائی اور اپنی خوب صورت الماری کی تصویر بھی ساتھ ہی شئیر کر دی
’’ آپ کی کتاب اس الماری کا حصہ بن سکتی ہے ‘‘۔
ادباء و شعراء نے اس کتاب دوست کی خوب خوب پزیرائی کی اور بہت سی کتابیں بھیج دیں۔
اب الماری کتابوں سے لبریز ہو گئی ہے۔ وہ انہیں دور سے تکتا رہتا ہے اور انھیں دیکھ دیکھ جیتا ہے۔۔۔





