Editorial

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی

پچھلے 5، 6سال کے دوران پاکستانی معیشت جہاں بدترین مشکلات سے دوچار ہوئی، وہیں ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی کہلائے جانے والے روپے کو بھی بدترین زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے جان بوجھ کر روپے کو بے توقیری اور بے وقعتی کی گہری کھائی میں دھکیلا جارہا ہے، یہ یکدم 100روپے سے 300روپے سے بھی تجاوز کر گیا۔ حالات روز بروز ہولناک شکل اختیار کررہے تھے۔ مہنگائی کے نشتر قوم پر بُری طرح برس رہے تھے۔ ڈالر بڑھنے سے ناصرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں بلکہ ہر شے ہی کے دام آسمان سے باتیں کرتے دِکھائی دیتے تھے۔ عوام کو اشک شوئی اور ریلیف کی کوئی شکل دِکھائی نہیں دیتی تھی۔ ہر سُو مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے، جو قوم کی مشکلات میں اضافے کا موجب بن رہے تھے۔ پھر نگراں حکومت نے ایک موثر قدم اُٹھایا۔ ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف پچھلے مہینوں کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا۔ ڈالر، سونا، کھاد، چینی، گندم اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں کو بڑی تعداد میں پکڑا گیا، اُن سے کروڑوں مالیت کا سامان برآمد کیا گیا، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں، اس کے نتیجے میں ڈالر جو انتہائی اونچی اُڑان اُڑ رہا تھا اور روپے کو چاروں شانے چت کرتا دِکھائی دے رہا تھا، اُس کے پر کترنے میں مدد ملی۔ آہستہ آہستہ ڈالر کے نرخ کم ہونے لگے اور اب اُس کی قیمت 284روپے کی سطح پر آگئی ہے۔ ایک وقت یہ سوا تین سو کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں آٹا اور چینی کے دام بھی کم ہوئے۔ کھاد کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے سے اس حوالے سے بھی صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کیا۔ حکومت اس پوزیشن میں آئی کہ اُس نے پہلے پٹرول کی قیمت میں 40روپے کی تاریخی کمی یقینی بنائی۔ 330روپے کی سطح سے پٹرول کم ہوا۔ ڈیزل کے نرخ بھی گرے۔ مہنگائی کی شدّت میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا۔ غریب عوام نے تھوڑا سکون کا سانس لیا۔ ڈالر کے دام مسلسل نیچے آرہے ہیں۔ عالمی منڈی میں بھی تیل کی قیمتیں گررہی ہیں، لہٰذا اس بار بھی نگراں حکومت نے عوام کو بڑا ریلیف فراہم کر ڈالا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں بڑی کمی عمل میں لائی گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی گئی۔ پٹرول 14روپے فی لٹر سستا جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 13روپے 50پیسے فی لٹر کمی کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 10روپے 14پیسے فی لٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 11روپے 29پیسے کمی کی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی نئی قیمت 267روپے 34پیسے فی لٹر ہوگی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 267روپے 21پیسے، مٹی کے تیل کی قیمت 191روپے 02پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 164روپے 64پیسے فی لٹر ہوگئی ہے۔ ادھر نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ پٹرول سیکٹر پر ٹیکسز بہت زیادہ ہیں، 60روپے فی لٹر پٹرول لیوی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی توانائی کے اجلاس میں وزیر توانائی نے پٹرول سیکٹر پر عائد ٹیکسز زیادہ قرار دیتے ہوئے نظرثانی پر زور دیا۔ محمد علی نے مزید کہا کہ ایف بی آر انکم ٹیکس خود وصول کرے، بلز میں نہ ڈالے، ملک میں کراس سبسڈی کو ختم کرنا ہوگا، پاور سیکٹر میں فکسڈ چارجز ہونے چاہئیں، اس طرح سردیوں اور گرمیوں کے ریونیو میں فرق نہیں پڑے گا۔ وزیر توانائی نے کہا کہ بجلی کی چوری کو قابل گرفت جرم بنارہے ہیں، آرڈیننس پر دستخط ہوچکے ہیں، جلد ہی نافذ العمل ہوجائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ ڈسکوز سے حکومت کی مداخلت کو ختم کرنا ہوگا، بجلی کے ٹیرف سٹرکچر اور کیپسٹی پیمنٹ کا حل نکالنا ہوگا۔موجودہ حالات کے تناظر میں پٹرول کی قیمت میں 14روپے اور ڈیزل کی قیمت میں ساڑھے 13روپے کی کمی خوش گوار ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ اس کی ضرورت بھی خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس سے مہنگائی کے زور میں کمی آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی کمی لائی جائے۔ اسی طرح اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں بھی کمی ممکن بنائی جائے۔ اس لیے کہ جب پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو ان اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں، اب جبکہ پٹرولیم مصنوعات سستی ہوئی ہیں تو اس تناظر میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کمی آنی چاہیے۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کارروائیوں میں اب بھی تیزی نہیں دِکھائی دے رہی۔ اس کی وجہ سے کھاد، چینی اور آٹے کی قیمت میں پچھلے کچھ ایام کے دوران ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے۔ خصوصاً کھاد مارکیٹ سے نایاب کردی گئی ہے۔ پاکستان کی زراعت کو بڑے نقصان سے دوچار کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ کھاد من مانے نرخوں پر بلیک میں فروخت ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس تمام تر تناظر میں ازحد ضروری ہے کہ اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے گرد مزید گھیرا تنگ کیا جائے اور ان ناپسندیدہ مشقوں کے خاتمے تک کریک ڈائون کو جاری رکھا جائے۔ پاکستانی روپے کو اُس کا مقام واپس دِلانے کے لیے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ قوم کی مشکلات بھی اسی کے ذریعے کم ہوں گی اور مہنگائی کا زور بھی ٹوٹے گا جبکہ معیشت کی صورت حال بھی بہتر رُخ اختیار کر سکے گی۔
اسرائیلی حملوں میں 19ہزار فلسطینی شہید
اسرائیل کی فلسطین کے خلاف تابڑ توڑ کارروائیاں جاری ہیں۔ غزہ لہو لہو ہے۔ مکمل انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ لگ بھگ تمام ہی عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں اور ان ملبوں تلے نہ جانے کتنی جانیں اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہیں، کوئی شمار نہیں، ہزاروں معصوم اطفال سے اس ناجائز اور درندہ صفت ریاست نے حقِ زیست چھین لیا ہے۔ فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ بدترین کارروائیاں جاری ہیں۔ اسکول محفوظ ہیں نہ اسپتال۔ عبادت گاہوں پر اسرائیل حملوں سے باز رہ رہا ہے نہ امدادی مراکز کو نشانہ بنانے سے چُوک رہا ہے۔ جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ بدمست ہاتھی کی طرح تباہی پھیلاتا دِکھائی دے رہا ہے۔ دُنیا بھر کے ممالک اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں جب کہ بعض مہذب کہلائے جانے والے ممالک اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتے اور اُس کی پیٹھ تھپتھپاتے نہیں تھک رہے ہیں۔ اسرائیل انہی کی شہہ پر اقوام متحدہ کے مطالبات کو خاطر میں لارہا ہے اور نہ دُنیا کے دوسرے ممالک کے مطالبات کو کوئی اہمیت دے رہا ہے۔ اُس نے مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ محض ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے بعد اُس نے وہ تباہی پھیلائی ہے کہ تاریخ انسانی میں تمام تر سفّاک، درندہ صفت حکمرانوں کو مات دے ڈالی ہے۔ دورِ حاضر کا شیطان عظیم نیتن یاہو انسانیت کو روندنے میں مصروفِ عمل ہے۔ اب تک 19ہزار لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ ہر طرح نوحے ہی نوحے ہیں۔ کہیں والدین اپنے بچوں کی رحلت پر بین کررہے تو کہیں اولادیں ماں، باپ کی لاشوں پر نوحہ کناں ہیں۔ اگر اس سلسلے کو فوری نہ روکا گیا تو عظیم ترین المیہ سامنے آئے گا، جس سے دُنیا کے بہت سے خطے متاثر ہوں گے۔گزشتہ روز بھی اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بم باری سے مزید 180فلسطینی شہید ہوگئے۔ غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر بم باری میں 10جبکہ مغربی کنارے میں چھاپہ مار کارروائی میں 11فلسطینی شہید ہوئے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 7اکتوبر سے جاری نسل کشی میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 18ہزار 900تک پہنچ گئی ہے جب کہ زخمی فلسطینیوں کی تعداد 55ہزار سے بھی بڑھ گئی ہے۔ شہدا میں فلسطین کے 55فٹ بالرز سمیت 85ایتھلیٹس بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب حماس کے جوابی حملوں سے کئی اسرائیلی ٹینک اور فوجی گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ ادھر اسرائیل نے حماس کے خلاف مکمل فتح کے لیے کئی ماہ تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہی، امریکی مشیر سلامتی سے ملاقات میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس کے خلاف اسرائیل کی مکمل فتح تک جنگ جاری رکھنے کا اعادہ کیا، نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل جنگ کے بعد غزہ کے کنٹرول سے متعلق امریکی موقف سے اختلاف رکھتا ہے اور ہمیں دو ریاستی حل بھی قبول نہیں ہے۔ ادھر حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ حماس کسی بھی ایسے فلسطینی قومی ریفرنس کی تشکیل کے لیے کسی بھی کوشش میں حصّہ لے گی جو ہمارے لوگوں کے حقوق بحال کرے۔ اسرائیل پچھلے 50سال سے زائد عرصے سے فلسطینیوں کے لیے زندگی کو عذاب بنائے ہوئے تھا۔ اس بدترین ظلم کے خلاف حماس نے آواز اُٹھائی ہے۔ اسرائیلی مظالم حد سے بڑھ چکے تھے۔ اس کے خلاف علم بغاوت بلند ہونا لازمی تھا۔ حماس نے یہ کوشش کی ہے اور ان شاء اللہ اب اسرائیل کا بُرا وقت شروع ہوچکا ہے۔ جلد اس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ فلسطین آزاد اور خودمختار ریاست کی صورت اُبھرے گا۔ بے ضمیر ممالک کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کا شمار بھی ظالموں میں ہوتا رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button