Editorial

بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ مسترد

مقبوضہ جموں و کشمیر وہ خطہ ہے، جہاں المیے در المیے جا بجا نظر آتے ہیں۔ جنت نظیر کشمیر بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باعث امن و امان سے دُور ہے۔ بھارت کشمیری مسلمانوں کے ساتھ پچھلے 75سال سے ظلم و ستم ، جبر، سفّاکیت، درندگی کی انتہائیں کرتا چلا آرہا ہے۔ بھارت کی دہشت گرد فوج سوا لاکھ کشمیری مسلمانوں کو شہید کر چکی ہے۔ ہزاروں افراد لاپتا ہیں۔ لاتعداد گم نام قبریں اس جنت نظیر میں موجود ہیں۔ کتنی ہی خواتین نیم بیوگی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں، کوئی شمار نہیں۔ اُن کے شوہر لاپتا کردیے گئے ہیں۔ نامعلوم حیات بھی ہیں کہ نہیں۔ کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑ چکی ہیں، ظلم در ظلم کے سلسلے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو آزادی کی جدوجہد سے باز رکھنے کے لیے بھارت نے تمام تر حربے اور ہتھکنڈے آزمالیے، تمام تر مظالم ڈھالیے، لیکن کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو ماند نہ کرسکا، اُن کے دلوں میں آزادی کے لیے جلتی شمع فروزاں کو بُجھا نہ سکا، بلکہ یہ جذبہ مزید توانا ہوا ہے۔ بھارت میں جب سے مودی برسراقتدار آیا ہے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے زیست مزید دُشوار بنادی گئی ہے۔ تمام تر مظالم کے پہاڑ ان پر توڑ لیے گئے ہیں۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی میں شدّت آئی ہے۔ ظلم کی تمام انتہائیں عبور کرلی گئی ہیں۔ اسی مودی کے دور میں اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی، مودی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ کشمیری مسلمانوں پر ہولناک قدغنیں بھارت سرکار کی جانب سے لگائی گئیں۔ اُن کے تمام تر حقوق سلب کرلیے گئے۔ بدترین کرفیو کی صورت حال خاصے عرصے تک رہی۔ انٹرنیٹ کی سروس خاصے وقت تک بند رکھی گئی تاکہ اطلاعات کی ترسیل نہ ہوسکے۔ بھارتی مظالم کا پردہ فاش نہ ہوسکے۔ مودی کے دور میں مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے بھونڈے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔ اسرائیل کے نقشِ قدم پر چلا گیا۔ بھارت میں پروپیگنڈا فلمیں تخلیق کی گئیں، تاریخ کو بُری طرح مسخ کیا گیا کہ دُنیا کو بیوقوف بنایا جاسکے۔ بھارت میں نظام انصاف بھی ہندو انتہاپسند اکثریت کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس حوالے سے اطلاعات روزانہ ہی عالمی میڈیا پر آتی رہتی ہیں، لیکن گزشتہ روز تو انڈین سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے بھارتی نظام انصاف کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوڑ ڈالا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحالی کی درخواستیں مسترد کردیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کیلئے دائر اپیلوں پر متعصبانہ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا 5اگست 2019ء کا فیصلہ برقرار رکھا، بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، آرٹیکل 370عارضی تھا، ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صدر کا حکم آئینی طور پر درست ہے، بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، آرٹیکل 370مقبوضہ کشمیر کی شمولیت کو منجمد نہیں کرتا، جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا، بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات 30ستمبر 2024ء تک کرانے کے احکامات جاری کر دئیے۔ بھارتی وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 370کی تنسیخ پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس متعصبانہ فیصلے کو پاکستان نے ناصرف مسترد کیا، بلکہ شدید ردعمل بھی دیا ہے۔ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتا ہے، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا ناقابل تنسیخ حق حاصل ہے، 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی سیاسی اور جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنا ہے، بھارتی سپریم کورٹ کی عدالتی توثیق کی قانونی اہمیت نہیں، بھارت ملکی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے بیانیے سے عالمی ذمے داریوں سے دستبردار نہیں ہوسکتا، یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سی عالمی برادری کی توجہ نہیں ہٹاسکتا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے، بھارتی اعلیٰ عدلیہ بدقسمتی سے اندھی ہوچکی، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، بین الاقوامی قانون 5اگست 2019ء کے غیر قانونی اقدامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل قراردادوں کی بھی نفی کرتا ہے، بھارتی سپریم کورٹ کی عدالتی توثیق کی قانونی اہمیت نہیں، پاکستان بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتا ہے، پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی حمایت جاری رکھے گا، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کا ناقابل تنسیخ حق حاصل ہے،5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی سیاسی اور جغرافیائی تبدیل کرنا ہے، یہ مسئلہ گزشتہ 7دہائیوں سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ عالمی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق کیا جانا ہے، بھارت کو کشمیری عوام اور پاکستان کی مرضی کے خلاف یکطرفہ فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں، پاکستان جموں و کشمیر پر بھارتی آئین کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کیلئے بھارت کو مجبور کرے۔ انہوں نے کہا کہ 1947ء سے کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کا مداوا ہونا چاہیے، کشمیریوں نے بھارتی کردار کو کبھی تسلیم نہیں کیا، فلسطین کے مسلمانوں کا جو ردعمل آیا ویسا ہی مقبوضہ کشمیر سے بھی آئے گا، جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس حوالے سے پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کا جلد اجلاس بلائے گا۔ دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کہا کہ پاکستان، بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ برقرار رکھنے کا فیصلہ سختی سے مسترد کرتا ہے، بھارتی عدلیہ نے فاشسٹ ہندو توا نظریے کے سامنے سر جھکالیا، بھارتی عدلیہ بھارتی حکومت کے لیے موزوں فیصلے دے رہی ہے، ایسے فیصلے بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر پر قبضے کو قانونی حیثیت نہیں دے سکتے، جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، تنازع جموں و کشمیر سات دہائیوں سے زائد عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارتی عدالتوں میں مسلمانوں کے خلاف فیصلے دینے کی ایک تاریخ ہے، بابری مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس، حیدر آباد مکہ مسجد دھماکے اور 2002ء کے گجرات فسادات کے دوران نرودا گام قتل عام کے فیصلے مثالیں ہیں، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر قانونی بھارتی زیر تسلط جموں و کشمیر کی حیثیت نہیں بدل سکتا، فیصلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے بھارتی غیر قانونی قبضے کے خلاف منصفانہ جدوجہد کے عزم کو مزید تقویت دے گا۔ عالمی برادری بھارت کے ماضی میں کشمیری عوام سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرائے۔ پاکستان نے بھارتی سپریم کورٹ کے انصاف کے برخلاف فیصلے پر مدلل، دوٹوک اور واضح ردعمل دیا ہے۔ اس یکطرفہ فیصلے سے بھارتی عدالتی نظام کا پردہ دُنیا بھر کے سامنے فاش ہوگیا ہے۔ وہاں نظام عدل پر ہندو اکثریت کی خواہشات کا ملمع واضح دِکھائی دیتا ہے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے کہاں ہیں۔ اُنہیں اب اپنے ضمیر کو بیدار کرتے ہوئے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جاری بھارتی مظالم کے تدارک کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 75سالہ مظالم کے اس سلسلے کو متروک کیا جائے اور کشمیری مسلمانوں کو اُن کا حق خودارادیت اقوام متحدہ میں منظور کردہ قراردادوں کے مطابق دلوایا جائے۔
غیر قانونی افغانوں کی واپسی کا سلسلہ جاری
پاکستان کئی عشروں سے انتہائی بڑے پیمانے پر غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی میزبانی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ ان لوگوں کی تین، چار نسلیں یہاں پروان چڑھ چکی ہیں۔ افغانستان سوویت یونین جنگ کے آغاز پر بڑی تعداد میں افغان باشندوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ پاکستان نے ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ انہیں تمام تر سہولتیں فراہم کیں۔ ان کو مشکل وقت میں ہرگز اکیلا نہ چھوڑا، بلکہ ہر کٹھن وقت میں پاکستان اور اس کے عوام سب سے پہلے موجود رہے۔ یہاں تک کہ ان کی وجہ سے پاکستان خود کئی بے پناہ مسائل میں گھر گیا۔ ایسے میں ان کی اپنے ملک پُرامن واپسی کی ضرورت کافی عرصے سے خاصی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔ سابق حکومتیں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں، اُن کی جانب سے محض اس حوالے سے اعلانات ہی سامنے آتے رہے۔ اس کے لیے کوئی قدم نہ اُٹھائے جاسکے۔ پچھلے مہینوں اس ضمن میں عملی قدم نگراں حکومت نے اُٹھایا۔ اکتوبر میں تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا، اس کے لیے ایسے باشندوں کو 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن دی گئی۔ ہزاروں خاندان رضاکارانہ طور پر اپنے ملکوں کو واپس چلے گئے۔ ڈیڈلائن کے خاتمے کے بعد سے تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو تلاش کرکے حکومتی قائم کردہ ہولڈنگ مراکز منتقل کیا جارہا ہے۔ جہاں انہیں عارضی قیام کے ساتھ کھانے، پینے سمیت تمام ضروریات زندگی فراہم کی جارہی ہیں۔ اس وقت غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے حوالے سے تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ نگراں حکومت اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات ممکن بنارہی ہے۔ ملک سے تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے کاوشیں جاری ہیں۔ ہولڈنگ کیمپوں میں ان کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے کہیں سے بھی کوئی بدمزگی رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔ غیر قانونی پناہ گزینوں کی واپسی کے سلسلے کا آغاز ہونے سے لوٹ مار، چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ عوام نے بھی سُکھ کا سانس لیا ہے۔ ملکی معیشت اور وسائل پر سے بڑے بوجھ میں آہستہ آہستہ کمی آرہی ہے۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو اُن کے ملک بھیجنا ناگزیر ہوگیا ہے کیونکہ پاکستانی معیشت ان کا مزید بوجھ نہیں اُٹھاسکتی جب کہ وسائل کی بھی شدید قلت ہے۔اس ضمن میں آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، 10دسمبر کو افغانستان واپس جانے والے باشندوں کی مجموعی تعداد 4لاکھ 23ہزار سے تجاوز کرگئی۔ 10دسمبر کو مزید ایک ہزار 930غیر قانونی مقیم غیر ملکی اپنے ملک چلے گئے، 68گاڑیوں میں 169خاندانوں کی اپنے وطن واپسی عمل میں لائی گئی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان کے اعلان سے قبل بھی غیر قانونی باشندوں کی کثیر تعداد رضاکارانہ طور پر اپنے وطن جاتی رہی ہے، ان مہمانوں کی اپنے وطنوں کو واپسی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی پاکستان بدری تک یہ سلسلہ جاری رکھا جائے۔

جواب دیں

Back to top button