عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے

پاکستان عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 فروری 2024 کی تاریخ پر اتفاق ہوا تھا۔ اب گزشتہ کچھ عرصے سے اس حوالے سے بعض عناصر کی جانب سے قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں، کچھ حلقوں کی جانب سے باتیں پھیلائی جارہی ہیں کہ عام انتخابات 8 فروری کو منعقد نہیں ہوسکیں گے۔ طرح طرح کے مفروضے گھڑے جارہے ہیں۔ عوام کو شک و شبہات میں مبتلا کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ ان حالات میںِ جب کہ معیشت کے حوالے سے حوصلہ افزا اطلاع سامنے آرہی ہیں۔ انتہائی وسیع پیمانے پر بیرون ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے اعلانات کیے جارہے اور معاہدے ہورہے ہیں۔ اس قسم کی افواہوں کسی طور مناسب امر قرار نہیں پاتیں۔ کون نہیں جانتا کہ پچھلے پانچ، چھ برسوں میں اس حوالے سے حالات وقت گزرنے کے ساتھ بدتر سے بدترین ہوتے چلے گئے تھے۔ پاکستانی روپیہ گراوٹ کی انتہاتک پہنچا۔ گرانی تین چار گنا بڑھ گئی۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں تین، چار سو فیصد اضافہ ہوگیا۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین پر براجمان ہوئیں۔ سابق دور میں معیشت کے ساتھ تجربے در تجربے کی روش نے حالات کو مزید گمبھیر بناڈالا۔ ترقی کے سفر کو بریک لگانے کی کوشش کی گئی، جس پر 13 جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے سابق حکمرانوں کو رخصت کیا اور خود اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔ ایک سال سے زائد عرصے تک معیشت کی بحالی کی کوششیں جاری رہیں۔ کچھ ماہ قبل حکومتی مدت پوری ہوئی اور اقتدار نگراں حکمرانوں کے سپرد ہوا۔ اس وقت حالات بہتر رُخ اختیار کرتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے چند احسن اقدامات کیے ہیں، جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ڈالر کے نرخ خاصی حد تک کم ہوچکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی ہے۔ مہنگائی کے زور میں بھی کچھ کمی آئی ہے، تاہم اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ نگراں سیٹ اپ کے آنے کے بعد سے ملک بھر سے عام انتخابات جلد از جلد کرانے کے مطالبات سامنے آرہے تھے، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی کئی بار عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد و معاونت کے عزم کا اعادہ کرچکے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت ہی مذکورہ بالا مسائل کو بہتر اور احسن انداز میں حل کرسکتی اور ملک و قوم کی مشکلات میں کمی لاسکتی ہے۔ عوام کی منتخب حکومت ہی ملک و قوم کو درپیش مسائل کے سدباب کے مینڈیٹ کی حامل ہوسکتی ہے۔ اس لیے اعلان کردہ تاریخ پر عام انتخابات کا انعقاد کرنا ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ بعض عناصر کی جانب سے انتخابات کے مقررہ تاریخ پر انعقاد نہ ہونے کے حوالے سے شک و شبہات پیدا کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ یہ معاشرے میں شر پھیلانے کے مترادف اقدام قرار پاتا ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ مقررہ تاریخ پر عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پُرعزم ہیں۔اسی ضمن میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں، 9 مئی کے بعد ریاستی جبر کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، یہ محض الزام ہی، محدود مینڈیٹ میں رہتے ہوئے نگراں حکومت قومی معیشت بہتر بنانے کے لیے جو ممکن ہے، وہ کررہی ہے، باقی کام آئندہ حکومت کرے گی۔ ان خیالات کاا ظہار انہوں نے ’’انڈپینڈنٹ اردو’’ کو خصوصی انٹرویو میں کیا۔ انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے، اس حوالے سے قوم کو شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم نے اس توقع کا اظہار کیا کہ آئندہ عام انتخابات آزادانہ ہوں گے، ہم انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ لوگ مختلف سیاسی تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں، کس رہنما کی مقبولیت کتنی ہے اس کا اندازہ عام انتخابات میں ہوجائے گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ابھی تک ان پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ مستقبل میں کیا صورت حال ہوگی، اس بارے میں وہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ فی الحال سابق وزیراعظم انتخاب لڑنے کی پوزیشن میں ہیں۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کی مبینہ گمشدگیوں، منظرعام پر آنے اور سیاست چھوڑنے کے اعلانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو ریاستی اداروں پر حملے ہوئے جس کے بعد کئی لوگ روپوش ہوگئے، اس روپوشی کے دوران کسی سوچ بچار کے نتیجے میں پی ٹی آئی یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا، ان افراد کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اس بارے میں وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کے ساتھ ریاستی جبر کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، نہ ہی کسی نے ریاستی جبر کی بات کی، یہ محض الزامات کی حد تک ہے۔ وزیراعظم نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا۔ وزیراعظم نے نگراں حکومت کی قومی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کے پاس ایک محدود مینڈیٹ ہے اور اس میں رہتے ہوئے وہ جو کام کرسکیں گے، کریں گے، باقی کام آئندہ حکومت کے لیے چھوڑ کر جائیں گے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے عام انتخابات کے مقررہ تاریخ پر انعقاد پر یقین ظاہر اور اس حوالے سے شکوک و شبہات کی مکمل نفی کرکے، اس ضمن میں پائی جانے والی افواہوں اور بے بنیاد، من گھڑت مفروضوں کا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پوری تندہی سے مقررہ تاریخ پر عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام تر تیاریاں مکمل کرچکا ہے۔ وہ اس کے لیے پوری لگن سے کارفرما ہے۔ نگراں حکومت بھی پوری طرح اُس کی معاونت کرے گی۔ بدخواہ ملک کو استحکام حاصل کرتا دیکھنا نہیں چاہتے، اس لیے ایسی افواہیں پھیلاتے ہیں۔ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے اور ان کے نتیجے میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایسی حکومت برسراقتدار آئے گی جو ملک و قوم کے مصائب کے خاتمے کے لیے کاوشیں کرے گی، انہیں ترقی اور خوش حالی سے ہمکنار کرے گی۔
اسرائیلی حملے جاری، مزید 110فلسطینی شہید
اسرائیلی وحشیانہ حملوں میں شدّت آگئی ہے۔ غزہ پوری طرح لہو لہو ہے۔ ہر طرف لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ کہیں اپنے جگر گوشوں کے بچھڑ جانے پر والدین ماتم کناں ہیں تو کہیں اولادیں اپنے ماں باپ کی موت کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تباہ حال انفرا سٹرکچر ہے۔ عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں، جن کے تلے نامعلوم کتنے مسلمان زندہ اور موت کے منہ میں جاچکے ہیں، کوئی اندازہ نہیں۔ 7اکتوبر سے اب تک اسرائیل 16ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے۔ ان میں ساڑھے 6ہزار کے قریب معصوم بچوں کو بھی شہید کیا جا چکا ہے۔ بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ درندہ صفت اسرائیل اس کے باوجود باز نہیں آرہا اور ہر طرح سے پے درپے حملے کیے جارہا ہے۔ اس ناجائز ریاست کو دُنیا کے چند خودساختہ مہذب ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جو اسرائیلی کارروائیوں کے جواز پیش کرتے نہیں تھک رہے۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل کو بے گناہ، معصوم اور مظلوم ٹھہرا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ فلسطینیوں کو ظالم قرار دیتے نہیں ہچکچا رہے۔ دُنیا میں اکثر درد مند دل رکھنے والے ممالک بھی ہیں، ادارے بھی ہیں جو مسلسل جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، اقوام متحدہ بارہا جنگ بندی کا مطالبہ کر چکا ہے۔ اسلامی ممالک سمیت بہت سے ملکوں نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے تحت عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلانے کے مطالبے کیے ہیں۔ کیوں نہ اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے کہ اس نے تمام جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے موجودہ انسانی تاریخ میں بدترین مظالم کو رقم کیا ہے۔ ماضی میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حملے جاری ہیں اور ان کا دائرہ کار وسیع ہورہا اور شہیدوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی 110فلسطینی مسلمانوں سے حقِ زیست چھین لیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں، دیر البلاح، خان یونس، نصیرات اور بریج کیمپ پر اسرائیلی بم باری سے ایک روز میں مزید 110فلسطینی شہید ہوگئے۔ عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے شہید فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے، غزہ شہر کے 35میں سے 26اسپتال مکمل طور پر بند ہوگئے، اسرائیلی ٹینکوں نے ایمبولینسوں پر بھی حملے کیے ہیں، فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک بار پھر فاسفورس بموں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی آرمی چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ خان یونس شہر کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا ہے، ہرزی حلیوی کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں اسرائیلی فورسز کے حملے شمالی غزہ کو محفوظ بنانے کے لیے ہیں۔ ناجائز ریاست اسرائیل کے پاپ کا گھڑا بھر چکا ہے۔ اس کا زوال نزدیک ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے اختتام کے قریب ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ اسرائیل جہنم واصل ہوگا اور آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام جلد عمل میں آئے گا۔ وہ دن دُنیا کو جلد دیکھنا نصیب ہوگا۔





