
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس کی سماعت جیل میں کرنے کے احکامات جاری کیئے گئے تھے۔ جبکہ صحافیوں کو کوریج کی جازت بھی دینے کے احکامات جاری ہوئے تھے۔ لیکن اب بی بی سی کے صحافی شہزاد ملک کے نیوز آرٹیکل کے مطابق ایسے افراد کو صحافی بنا کر اندر بھیجا جا رہا ہے جن کو پہلے بطور صحافی کبھی نہیں دیکھا۔
شہزاد ملک لکھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت راولپنڈی اڈیالہ جیل میں پیر کے روز ہونا تھی تو مجھ سمیت مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ارکان اس یقین کے ساتھ جیل کے اندر ہونے والی اس عدالتی کارروائی کو دیکھنے کی خواہش لیے اڈیالہ جیل کے باہر صبح سویرے ہی پہنچ گئے کہ آج تو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات ذوالقرنین اپنے فیصلے میں عمل درآمد کرتے ہوئے باقی میڈیا کے ارکان کو بھی جیل کے اندر جانے کی اجازت دیں گے جنھیں سنیچر کے روز ہونے والی سماعت کے دوران ’جیل کے حکام‘ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمرۂ عدالت میں جانے سے روک دیا تھا۔
لیکن یہ کیا کہ آج بھی وہی عمل دہرایا گیا جو گذشتہ سماعت کے دوران دہرایا گیا تھا۔ آج اور ہفتے کے روز ہونے والی کارروائی میں فرق یہ تھا کہ پہلی سماعت کی کوریج کے لیے تین صحافیوں کو لے جایا گیا لیکن اس مرتبہ مقامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو جیل کے اندر قائم عدالت کی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آج کی عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی آدھی تعداد ایسی تھی جنھیں عدالتی کارروائی کور کرتے ہوئے پہلے نہیں دیکھا گیا۔جن چھے صحافیوں کو اندر لے جایا گیا ان میں مقامی صحافی ثاقب بشیر بھی شامل تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کی تلاشی لینے اور ہاتھ پر کلیئرنس کی مہر لگانے کے بعد کمرۂ عدالت میں لے جایا گیا تو انھوں نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی 20 سے 25 صحافی جیل کے باہر موجود ہیں جن میں مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندے بھی موجود ہیں وہ سارے اس انتظار میں ہیں کہ انھیں بھی اندر بلایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹیڈنٹ اسد جاوید وڑائچ جج کی کرسی کے ساتھ کھڑے تھے تو جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو دیکھیں لیکن ثاقب بشیر کے بقول جیل سپرنٹینڈنٹ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
اڈیالہ جیل کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے جب پوچھا گیا کہ وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے یعنی وہ صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے تو حکام کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اندر بلانے کا فیصلہ ان کا نہیں بلکہ کہیں اور سے ہوتا ہے اور جب ’کہیں اور‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کو معلوم ہے۔







