Column

پاکستان اور پولیو

تحریر : حسیب بٹر ایڈووکیٹ
نارووال ضلع میرے بچپن کی یادوں کا امین ہے جہاں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا یہ وہ ایام تھے جب چڑھتی جوانی اپنے تمام سرکش جذبوں کے ساتھ رنگ دکھاتی ہے ہمارے ابا حضور۔ سیشن جج ریٹائرڈ۔ اعجاز احمد بٹر اللہ مغفرت فرمائے تب وہاں تعینات تھے یہ 23سال پرانی بات ہے لوکل گورنمنٹ کا پہلا الیکشن بھی ابا حضور کے رہین منت تھا کہ آپ وہاں ڈیوٹی پر مامور تھے، نارووال بڑی زرخیز دھرتی ہے، کرتار پور سے آگے شکر گڑھ جائیے تو شکر گڑھ بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ پاکستان کا معیاری وقت بھی شکر گڑھ کے سرحدی علاقے سے لیا گیا ہے، نشان حیدر کا اعزاز پانے والے سوار محمد شہید نے 1971ء کی جنگ میں شکر گڑھ کے مقام پر دشمن کے 16ٹینکوں کو تباہ کرکے دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کا مرتبہ پایا، انکی عظیم قربانی کی اعتراف میں انکی جائے شہادت ( ہرڑ خورد)میں یادگار تعمیر کرا دی گئی۔
1965ء کی جنگ کہ جب دشمن ساڑھے چھ سو ٹینکوں سے چونڈہ کے محاذ پر پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا اور دشمن کا کہنا تھا کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور کرے گا، اس وقت دشمن کے ساڑھے چھ سو ٹینکوں کے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف تقریباً ڈیڑھ سو ٹینک تھے، جنرل حمید گل اس وقت وہاں کمانڈ کر رہے تھے تو پاکستان کے بہادر فوجیوں نے اپنے سینوں پر بم باندھ لئے اور دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، یوں دشمن کے ٹینکوں کے پرخچے اڑ گئے، چونڈہ دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بن گیا تھا، دشمن وہاں اپنے ٹینک چھوڑ کر جان بچا کر بھاگا تھا۔ نارووال ضلع میں فیض احمد فیض کا گائوں کالا قادر بھی ہے، نارووال ضلع پر لکھتا گیا تو کالم کم پڑ جائے گا، نارووال ضلع بڑی محبت اور خلوص والے لوگوں کا ضلع ہے، میں مختلف اخبارات کا مطالعہ کر رہا تھا تو تقریباً تمام اخبارات میں ایک خبر نظر سے گزری کہ پولیو کی خاتمے کے لیے لگائی ڈیوٹی میں محکمہ صحت کی بہت سی کرپشن کے انکشافات ہوئے ہیں۔ اس خبر کے مطابق ایک لیڈی سپروائزر کسی خاتون کی ڈیوٹی لگانے کے لیے اس سے کچھ پیسوں کی ڈیمانڈ کرتی ہے، دوسرے وہی سپروائزر ڈیوٹی کرنے والی کسی دوسری ہیلتھ ورکر کہ جو اپنی ڈیوٹی کر چکی تھی کو، اس کے آئے ہوئے پیسوں کا پن کوڈ دینے سے پہلے اس سے بھی پیسوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ تیسرے پولیو ڈیوٹی پر کم عمر بچوں مامور کر دیا جاتا ہے اور آئی ڈی کارڈ کسی اور کا لگا دیا جاتا ہے اور گرائونڈ میں پولیو کی اگر سات ٹیمیں بنتی ہیں تو ریکارڈ میں دس ٹیمیں شامل کی گئی ہوتی ہیں، بتایا گیا ہے کہ ضلعی افسران سمیت اس گیم میں نارووال صحت کا محکمہ شامل ہے، خبر میں نارووال کے سی ای او کا موقف بھی شامل ہے، جس سے خبر دینے والے صحافی نے اپنی صحافتی ذمہ داری بھی پوری کی ہے۔
قارئین کرام! بیسویں صدی کے شروع میں صنعتی ممالک میں پولیو نے ایسا خوف پھیلایا کہ لوگ اس میں مبتلا ہو کر نفسیاتی امراض کا شکار ہوتے جارہے تھے جس کے بعد تقریبا 1950ء کی دہائی میں اس کی ویکسین کے تیار ہونے کے بعد اس پر قابو پانے کا عزم بھی کیا گیا اور لوگوں کا ڈر بھی جاتا رہا کہ اس موذی مرض سے نجات ملے گی کہ جس سے ہر سال لوگ اپاہج اور معذور ہورہے تھے اس پر اس قدر کام ہوا کہ جن صنعتی ممالک میں اس کی وبا پھوٹی وہاں سے اس کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا پھر اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ نہ صرف ترقی یافتہ بلکہ دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی اس کی زد میں ہیں یہ 1970ء کی دہائی کی بات ہے جب اس ویکسین کو بڑھانے اور ترقی پذیر ممالک تک اسے پہنچانے کا آغاز ہوا جب اس کا آغاز ہوا تو روزانہ کی بنیادوں پر پولیو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو متاثر کر رہا تھا یہ وقت تھا جب دنیا کے کئی ممالک میں پولیو کی ویکسی نیشن سے پولیو پر قابو پالیا گیا تھا لیکن دنیا کے تین ممالک ایسے ہیں جہاں پولیو وائرس کی منتقلی کے عمل پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ان ممالک پاکستان، افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔
1980 کی دہائی کے اواخر میں،125ممالک میں پولیو مقامی وبائی مرض ہوا اور اس اقدام کا مقصد سال 2000تک اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ 1994تک، امریکہ سے پولیو کا خاتمہ ہو گیا، اس کے بعد 2002میں یورپ، اور 2003تک یہ بیماری صرف 6ممالک میں مقامی مرض رہ گیا تھا، 1988میں چیچک کے خاتمے کے بعد ڈبلیو ایچ او کی توجہ پولیو پر مرکوز ہوگئی

یوں پاکستان میں اس کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جانے لگیں اول تو ہمارے کچھ پاکستانی علاقوں میں پولیو کی ویکسین کو غلط تصور کیا گیا لیکن وقت اور تعلیم کے ساتھ شعور کی آگہی نے اسے مسئلے کو حل کیا تو پھر دوسرے مسائل نے سر اٹھایا ان مسائل میں یقیناً ایسے ہی مسائل ہونگے، جن کا ذکر مذکورہ خبر میں کیا گیا ہے، اس خبر میں ایک سپروائزر۔ ڈی ایس وی نارووال کا ذکر ہے تو مجھے ذرا بھی حیرت نہیں ہوا کہ سپروائزر بھی کرپشن کر سکتا ہے یا کر سکتی ہے یا ڈی ایس وی اس کرپشن کا حصہ ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں پاکستان کے ہر محکمہ میں کرپشن ایسے ہی چھوٹے ملازموں سے شروع ہو کر بڑوں تک جاتی ہے لیکن چھوٹی ملازم اکیلے کرپشن نہیں کر سکتے جب تک انکے ضلعی افسر اس میں شامل نہ ہوں اگر ضلعی افسر کی سرپرستی نہ ہو تو چھوٹا ملازم کرپشن کے سلسلوں کو دراز نہیں کر سکتا بس اسی کرپشن نے پاکستان کو ترقی نہیں کرنے دی پاکستان کو اپنے قیام سے اب تک اگر کرپٹ سیاستدان نہ ملتے تو آج چائنہ کی طرح ہم دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے میں نے نارووال سے اس خبر کے بارے معلومات حاصل کیں تو پتہ کہ اس محکمہ کے ضلعی افسران کا تعلق اسی ضلع سے بس یہی خرابی کی ایک وجہ بھی ہے جب ایک سپروائزر۔ ڈی ایس وی۔ ایس ڈی او۔ سی ای او سب کا تعلق ایک ہی ضلع سے ہوگا تو یہ ایک کڑی بن جاتی ہے اور ہر ایک کڑی دوسری سے جڑی ہوتی ہے اگر ایک ضلع میں مختلف اضلاع کے ملازم تعینات ہونگے تو اتنی آسانی سے کرپشن کی راہیں ہموار نہیں ہونگی دنیا ہماری مختلف حوالوں سے مدد کرتی ہے اور ہم مختلف طریقوں سے اس میں کرپشن کی راہیں نکال لیتے ہیں یعنی ہم اپنے لئے بھی کچھ نہیں کر پا رہے اور اگر کوئی دوسرا ہمارے لئے کچھ کرتا ہے تو بھی ہم اسے صحیح طریقوں سے قبول نہیں کر پاتے جو بہت افسوسناک امر ہے اس لئے ہم اپنے لئے کچھ کرتے ہیں کہ نہیں لیکن ضروری ہے کہ اگر کوئی دوسرا ہمارے لئے کچھ کرتا ہے تو چاہئے یہ کہ اسے تو ہم کرنے دیں یقیناً مذکورہ خبر کے حوالے سے نارووال کے ڈی سی صاحب انکوائری بھی لگائیں گے لیکن یہ انکوائری اگر محکمہ صحت کے وہی افسر کریں گے جو وہاں تعینات ہیں تو کچھ حاصل نہیں ہوگا انکوائری کیلئے تو کوئی دوسرا غیر جانبدار شخص چاہئے ہوتا ہے بلکہ انکوائری کا بہترین طریقہ میرے خیال میں تو یہ ہونا چاہئے کہ کرپپشن میں ملوث افراد کی خفیہ معلومات حاصل کی جائیں۔ میں پچھلے کچھ سالوں سے جرمنی میں مقیم ہوں اور قانون کی پریکٹس کرتا ہوں، جرمنی میں تو ڈرائیونگ لائسنس ملنا کسی اہم ڈگری ملنے کے مترادف ہے۔ لوگ ڈرائیونگ لائسنس ملنے پر مبارکبادیں دیتے ہیں اور ہم کہ اچھی بھلی تعلیم حاصل کرکے ڈگریاں لے کر بھی خود کو نہیں بدلتے۔

جواب دیں

Back to top button