Editorial

ٹی ٹی پی یا پاکستان، فیصلہ افغانستان کو کرنا ہے

1979ء میں جب سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا تو ناصرف سپرپاور کے خلاف پاکستان نے افغانستان کی بھرپور مدد کی، بلکہ اس کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے لاکھوں افغان باشندوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ اُن کو رہنے کے لیے سائبان فراہم کیے۔ اُن کو ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائی گئیں۔ اُن کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھ کر جوان ہوئیں۔ اُنہوں نے یہاں کاروبار جمائے، روزگار کمایا، اپنی اولادوں کو پڑھایا۔ اب بھی لاکھوں افغانی سرزمین پاک میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں افغانستان کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے شکست فاش دینے میں وطن عزیز کا بڑا حصّہ رہا۔ افغانستان پر جب بھی بُرا وقت پڑا پاکستان نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اُس کی مشکلات کا مداوا کرنے میں اپنا کردار نبھایا۔ امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تو دہشت گردی کا عفریت افغانستان کے ذریعے پاکستان منتقل ہوا۔ یہاں ڈیڑھ عشرے تک بدترین دہشت گردی رہی۔ 80ہزار سے زائد بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، ان میں سیکیورٹی فورسز کے شہید جوانوں اور افسروں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ دہشت گردی کے باعث ملک کی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تن تنہا پاکستان نے راست کوششیں کیں۔ سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں لاتعداد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، گرفتار کیا، ان کے ٹھکانے تباہ کیے، کئی علاقوں کو کلیئر کرایا اور دہشت گردی کی کمر توڑ کر دُنیا کو حیران ہونے پر مجبور کردیا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو دُنیا بھر نے سراہا۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی اور معیشت نے ترقی کی جانب سفر شروع کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا میں بھی پاکستان کا کلیدی کردار رہا۔ پاکستان نے افغانستان میں امن و امان کے لیے ہمیشہ سنجیدگی دِکھائی۔ گویا پاکستان نے ہمیشہ بڑے بھائی ہونے کا فرض نبھایا۔ اس کے برعکس افغان حکومتوں اور شہریوں نے کبھی بھی پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ پاکستان کے پُرخلوص اقدامات اور کردار کو شک کی عینک سے جانچا، دشنام طرازیاں کیں۔ امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قابل ہوئی تھی۔ اس کے قیام کے بعد سے پاکستان میں سرحد پار سے حملے متواتر ہورہے ہیں جب کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات میں ہولناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہے اور افغان حکومت اس کے تدارک کے حوالے سے انتہائی غیر سنجیدگی دِکھا رہی ہے۔ اسی لیے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو بھی کہنا پڑ گیا کہ افغانستان ٹی ٹی پی کو چن لے یا پاکستان کو۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان عبوری حکومت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افغانستان میں غیر قانونی طورپر مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کے حوالے کرے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہوئے افغانستان میں موجود اس کے ٹھکانوں اور تربیتی مراکز کا قلع قمع کرے، افغانستان کو باہمی تعاون کی نئی تاریخ رقم کرنے کی دعوت دیتے ہیں، پاکستان کے عوام نے افغان مہاجرین کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کیے، اس بے مثال جذبہ ایثار کے جواب میں الزام تراشی اور دشنام طرازی نے پاکستان کے غیور اور بے لوث عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی، بدقسمتی سے پاکستان کے صبر، فراخ دلی اور مصالحت پسندی کی قدر نہیں کی گئی اور افغان عبوری حکومت نی افغانستان سے ہونے والی پاکستان مخالف دہشت گردی کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے، افغان حکومت کے عدم تعاون کے بعد اب پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغان رہنمائوں کے دھمکی آمیز بیانات افسوس ناک ہیں، دہشتگرد افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں، مطلوب سرکردہ دہشت گردوں کی فہرست افغانستان کے حوالے کی گئی، افغان عبوری حکومت دہشت گردی میں ملوث افراد کو ہمارے حوالے کرے، توقع ہے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے، پاکستان نے افغانستان کو پاکستان یا کالعدم ٹی ٹی پی میں سے ایک کو چُننے کا کہا ہے۔ بدھ کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ہمسائیگی، مذہب، اخوت اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان کے لیے جس ایثار اور اخوت کا مظاہرہ ریاست پاکستان اور پاکستان کے عوام نے کیا ہے وہ اس کا عملی نمونہ ہے۔ جب بھی افغانستان پر کوئی افتاد پڑی، پاکستان کی حکومت اور عوام نے ان کی بھرپور مدد کی اور ہر طرح سے ان کا درد بانٹا۔ پاکستان نے گزشتہ 44 برس سے 40 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور محدود وسائل کے باوجود نہایت خندہ پیشانی سے اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ نبھایا۔ اس ضمن میں عالمی ادارہ کی محدود اور قلیل امداد پاکستان کی مہاجرین کو چار دہائیوں پر محیط معاونت کا عشر عشیر بھی نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگست 2021میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد ہمیں قوی امید تھی کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوگا۔ باہمی تعاون سے دونوں ریاستیں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں استوار کریں گی۔ پاکستان مخالف گروہوں خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور ان کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی، لیکن بدقسمتی سے عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60فیصد اور خودکُش حملوں میں 500فیصد اضافہ ہوا۔ پچھلے 2سال میں 2267معصوم پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خونزیری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، جس کے ذمے دار تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگرد ہیں جو افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کررہے ہیں۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پاکستان اور اس کے عوام کے احساسات کی بھرپور ترجمانی کی ہے اور اپنا مدعا مدلل انداز میں صائب طریقے سے پیش کیا ہے۔ افغانستان کی جانب سے اس ضمن میں لاپروائی اور غفلت کا مظاہرہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیوں میں کیا امر مانع ہے۔ کیا پاکستان کے پُرخلوص اقدامات کو افغانستان یکسر فراموش کرچکا ہے۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا بھرپور ساتھ نبھایا ہے۔ آج بھی وہ افغانستان کی بہتری اور خوش حالی کے لیے اقدامات سے پیچھے نہیں ہے۔ وسائل کی کمی اور معیشت کی زبوں حالی کے باوجود لاکھوں غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ اب دگرگوں حالات کے سبب اُن کی محفوظ اور باعزت افغانستان واپسی یقینی بنارہا ہے۔ ٹی ٹی پی یا پاکستان میں سے ایک کو چُن لیا جائے، ایک طرف وہ محسن ہے، جو بے لوث خدمات سرانجام دے رہا ہے، دوسری جانب ایک دہشت گرد تنظیم، جس نے تباہی اور برباد کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اس حوالے سے فیصلہ افغانستان کو کرنا ہے۔ پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو دیکھتے ہوئے افغانستان کو اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف اپنے ملک میں کارروائیاں کرے، سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام یقینی بنائے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کا ساتھ دے۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا 146واں یومِ ولادت
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا 146واں یوم ولادت گزشتہ روز منایا گیا۔ آپؒ کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی۔ اقبالؒ کی شاعری اور اُن کے افکار نے امہ میں غیرت ایمانی کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوم اقبالؒ کے موقع پر حکومت کی جانب سے ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ یوم اقبالؒ پر ملک بھر میں مختلف تقریبات کا انعقاد ہوا، ٹی وی چینلوں پر پروگرام نشر کیے گئے۔ دیکھا جائے تو علامہ اقبالؒ کی بیش بہا خدمات کا قرض یہ قوم ادا کرنے سے قاصر ہے، انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک ایسے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا، جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، اس خواب کو قائداعظمؒ نے شرمندۂ تعبیر کیا۔ یہ اقبالؒ کے فلسفے اور عظیم نظریات کا ہی کمال تھا کہ ہمیں آزاد فضا میں سانس لینا نصیب ہوا۔ اُمت مسلمہ کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی بیش بہا خدمات کو کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آپؒ کی شاعری لازوال ہے۔ وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں، آج بھی دُنیا کے مختلف ملکوں میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ اُن کے لافانی افکار بلاشبہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے، اُنہوں نے خاصے مشکل حالات میں زیست بسر کی۔ ہمیں ان عظیم رہنما کے افکار کا پرچار محض اُن کے یوم پیدائش اور برسی کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں ملحوظ خاطر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہیے، لیکن ہمارا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ افسوس کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود بھی اقبالؒ کی آفاقی فکر کا عملی اطلاق ہمارے معاشرے پر نہیں کیا جاسکا ہے، اُن سے دانستہ بے اعتنائی برتی جاتی رہی، ان کے نام لیوا تو بہت ہیں، لیکن اُن کے افکار پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز میں ہر سُو خرابے دِکھائی دیتے ہیں اور آج ہم بہ حیثیت قوم و ملک پستیوں کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایسی کون سی بُرائی ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود نہیں اور اس میں روز بروز اضافہ نہ ہورہا ہو جبکہ اچھائیوں کی کمی شدّت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبالؒ کے افکار، فلسفے اور نظریات کا ہر سطح پر خوب پرچار کیا جائے۔ حکمراں بھی محض اُن کے نام کی مالا نہ جپیں، بلکہ اُس سے آگے بڑھتے ہوئے علامہ اقبالؒ کے لافانی نظریات پر عمل کو اپنا شعار بنائیں۔ اس عظیم مفکر سے سماج کے ہر فرد کو صحیح معنوں میں روشناس کرایا جائے۔ اُن کے خیالات کو معاشرے کا ہر انسان نا صرف سمجھتا ہو، بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی کرے۔ اقبالؒ کے افکار اور نظریات پر عمل پیرا ہوکر ہی ترقی اور خوش حالی کی منازل کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button