اسرائیلی جارحیت: 10ہزار فلسطینی شہید

فلسطینی مسلمانوں کے لیے زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔ پون صدی اُن پر انتہائی گراں گزری ہے کہ اسرائیل کے تسلط اور مظالم کی تمام حدیں پار ہوچکی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ بے شمار بے گناہ مسلمانوں سے حق زیست چھینا جاچکا ہے۔ اُن کی آزادی اور خودمختاری سلب ہے۔ اُنہیں اُن کے بنیادی حقوق تک میسر نہیں۔ وہ روز جیتے اور مرتے ہیں۔ اُنہیں اسرائیل اپنے زیر تسلط رکھنے پر آمادہ ہے۔ اُس کے مظالم کے باوجود دُنیا اس سے باز رکھنے سے قاصر ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول کے تقدس کی پامالی کے بارہا مظاہرے ہوچکے ہیں۔ معصوم بچے تک اسرائیلی مظالم سے محفوظ نہیں۔ اسرائیلی مظالم تمام حدیں عبور کرچکے تھے۔ اس تناظر میں فلسطین کی خودمختاری اور آزادی کے لیے گزشتہ ماہ حماس نے اسرائیل پر 5ہزار راکٹ فائر کیے۔ اسرائیل اس پر آپے سے باہر ہوگیا اور وہ وہ مظالم بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں پر ڈھائے کہ جس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ ایک ماہ کے عرصے کے دوران دس ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری میں شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ تمام عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں۔ ملبے کے ڈھیر ہیں، اُن کے نیچے نہ جانے کتنے فلسطینی مسلمان دبے ہوں۔ ہر طرف لاشے ہی لاشے ہیں۔ ہر سو بین ہیں۔ چار ہزار کے قریب معصوم بچے اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے۔ اسرائیل کے حملوں سے اسپتال محفوظ ہیں نہ عبادت گاہیں۔ اسکول محفوظ ہیں نہ یو این او کے مراکز۔ اسرائیل ظلم در ظلم ڈھارہا ہے اور مہذب دُنیا اسے معصوم اور فلسطینیوں کو ظالم ٹھہرارہی ہے۔ امریکا اور برطانیہ اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت اکثر ممالک اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہا۔ اس ناجائز ریاست کو دُنیا کے بعض بڑوں کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے، جنہوں نے اسے کھل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔ دس ہزار لوگوں کی موت کی وجہ بننے والے اسرائیل کے ساتھ اس جرم میں وہ طاقتیں بھی شامل ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی 31روز سے جاری وحشیانہ کارروائیوں کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 10ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی جارحیت سے مزید 252فلسطینی شہید ہوئے، جس کے بعد 7اکتوبر سے اب تک شہید ہونے والے افراد کی تعداد 10ہزار 22ہوگئی ہے۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ شہید افراد میں 4104بچے اور 2641خواتین بھی شامل ہیں۔ اس عرصے میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 25ہزار 408فلسطینی زخمی ہوئے۔ دھیان رہے کہ 31روز سے جاری اس جنگ کے باعث غزہ کے 15لاکھ سے زائد افراد بے گھر بھی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے اب تک 140سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ وزارت صحت کے ترجمان نے بتایا کہ 7اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بم باری میں 192طبی ورکرز شہید جبکہ 32ایمبولینسیں تباہ ہوچکی ہیں۔ ترجمان کے مطابق اسرائیلی بم باری کے باعث غزہ کے 16اسپتال بند ہوچکے ہیں جب کہ بیکریوں کو نشانہ بنائے جانے سے خوراک کا بحران بڑھ گیا ہے۔ دھیان رہے کہ اسرائیلی جارحیت اور درندگی کے باعث 6نومبر کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی 18عالمی تنظیموں کے سربراہان نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں انسانی بنیادوں پر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انٹر ایجنسی اسٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے پر 18تنظیموں کے سربراہان نے دستخط کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ بہت ہوگیا اب اس جنگ کو ہر صورت رکنا چاہیے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کا قتل سفاکیت ہے، اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 2.2 ملین فلسطینی محصور ہیں، جہاں غذا، پانی، ادویہ، بجلی اور ایندھن تک میسر نہیں جب کہ گھروں، پناہ گاہوں، عبادت گاہوں اور اسپتالوں پر بم باری کی جارہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔انٹر ایجنسی اسٹینڈنگ کمیٹی کا مطالبہ بالکل صائب ہے۔ اسرائیل کو اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ اس موقع پر وہ ممالک خاموش دکھائی دیتے ہیں جو خود کو نام نہاد مہذب گردانتے نہیں تھکتے۔ کسی جانور پر ظلم ہوتا دیکھ لیں تو اُن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، لیکن دس ہزار بے گناہ انسانوں کی اموات پر وہ خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ گویا وہ ان مظالم پر اسرائیل کی خاموش حمایت کررہے ہوں۔ کاش انہیں اس معاملے کی سنگینی کا ادراک ہو۔ فلسطین میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ وہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہے نہ فون کی۔ خوراک میسر ہے نہ پانی۔ فلسطینی مسلمان انتہائی ہولناک حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اس میں وہ بھی قصوروار ہیں جو خود کو مہذب گردانتے ہیں۔ بہت ہوچکا، اب دُنیا کو اسرائیل کو ہر صورت سیز فائر کرنے پر مجبور کرنا پڑے گا۔
ڈینگی، نیگلیریا اور کانگو وائرس کے وار
ملک عزیز میں صحت کے حوالے سے صورت حال ہرگز تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہاں بیماریاں انتہائی سرعت سے پھیلتی اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ موجودہ موسم میں کئی طرح کی وبائیں سامنے آتی ہیں جو کئی انسانی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ڈینگی کے وار جاری ہیں۔ سیکڑوں لوگ اس وائرس میں مبتلا بتائے جاتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈینگی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان کے عوام بھی دو خطرناک وائرسز کا سامنا کررہے ہیں۔ بلوچستان میں تو کانگو وائرس کے حوالے سے صورت حال سنگین شکل اختیار کرتی نظر آتی ہے اور وہاں کے نگراں وزیراعلیٰ نے صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔ سندھ میں نیگلیریا وائرس رواں سال گیارہ زندگیاں نگل چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک صحافی اس کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا۔ کراچی میں نیگلیریا وائرس نے ایک اور جان لے لی، رواں سال جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 11ہوگئی۔ ترجمان محکمہ صحت سندھ کے مطابق کراچی کے علاقے بفرزون ضلع وسطی کا رہائشی 45سالہ صحافی کاشف قمر نیگلیریا سے انتقال کر گیا، رواں سال صوبے بھر میں اموات کی تعداد 11ہوگئی۔ ترجمان کے مطابق کاشف قمر کو یکم نومبر کو نارتش ناظم آباد کے نجی اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، مریض کے پی سی آر ٹیسٹ میں نیگلیریا کی تصدیق ہوئی تھی۔ دوسری جانب بلوچستان میں کانگو وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ سول اسپتال کوئٹہ کے مزید 2ڈاکٹروں میں کانگو وائرس کی تصدیق ہوگئی۔ ترجمان محکمہ صحت کے مطابق سول اسپتال کے مزید 2ڈاکٹروں میں کانگو وائرس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد کانگو وائرس میں مبتلا ڈاکٹروں کی تعداد 11ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق سول اسپتال کی ایک نرس، ایک پیرامیڈیکس اور ایک فارماسسٹ بھی کانگو وائرس میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں کانگو وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی کی زیرصدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں اب تک کانگو وائرس کے 44کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے پیش نظر صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ ڈینگی، نیگلیریا اور کانگو وائرس کے حوالے سے صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے انتظامیہ کو راست اقدامات ممکن بنانے چاہئیں۔ عوام کو بھی چاہیے ان وائرسزسے محفوظ رہنے کے لیے ہر طرح سے احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ کہا جاتا ہے کہ احتیاط افسوس سے بہتر ہے۔ ڈینگی، نیگلیریا اور کانگو سے خود کو بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر اپنائیں۔





