Editorial

8فروری کو عام انتخابات کا انعقاد

ملک عزیز اس وقت مشکل صورت حال سے گزر رہا ہے۔ معاشی میدان میں حالات ازحد دگرگوں ہیں۔ پچھلے پانچ، چھ سال کے دوران اس حوالے سے صورت حال دن بہ دن سنگین ہوتی رہی۔ حکمرانوں سے ملک سنبھالا جاسکا نہ معیشت۔ قوم پر مہنگائی کے بدترین نشتر برسائے گئے۔ تاریخی مہنگائی کے جھکڑ چلے، گرانی میں تین سے چار گنا اضافہ ہوگیا۔ لوگوں کے لیے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ترین امر بن کر رہ گیا۔ ترقی کا سفر تھم سا گیا۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین پستیوں کا شکار ہوا۔ ایشیا کی سب سے بہترین کرنسی کہلانے والا روپیہ اپنی بے توقیری پر ماتم کناں نظر آیا۔ مہنگائی کے عفریت کی تباہ کاریاں میں شدّت روپے کی تاریخی بے قدری کے باعث آئی۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچ گئے۔ اشیاء خورونوش، پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی، الیکٹرانکس آئٹم، موٹر سائیکلیں، کاریں، گاڑیاں وغیرہ سب کی قیمتیں دُگنی تگنی ہوگئیں۔ پی ڈی ایم پر مشتمل اتحاد نے پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کیا اور خود اتحادی حکومت قائم کی۔ مدت پوری ہونے پر اتحادی حکومت اقتدار سے علیحدہ ہوگئی اور اقتدار نگراں حکومت کے سپرد کر دیا گیا۔ نگراں سیٹ اپ کے آنے کے بعد سے عام انتخابات بروقت کرانے کے ہر جانب سے مطالبات سامنے آئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عنان اقتدار عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کے سپرد ہونا چاہیے، تاکہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز کا معقول حل نکال سکے۔ عام انتخابات کی تاریخ اب تک سامنے نہ آسکی تھی۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت تھا، جس میں بڑی پیش رفت ہوئی اور عام انتخابات کے 8فروری 2024کو منعقد کرانے کا حتمی فیصلہ سامنے آیا، صدر مملکت عارف علوی نے اس فیصلے کی دستخط کرکے توثیق بھی کر ڈالی، عام انتخابات 8فروری 2024کو منعقد کرانے سے متعلق صدر مملکت کی دستخط شدہ دستاویز کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع بھی کرا دیا گیا ہے۔ اس پر تمام سیاسی حلقے اس اقدام کو سراہا رہے ہیں۔ قبل ازیں گزشتہ روز سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد صدر مملکت، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کے درمیان 8فروری 2024کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوگیا۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وفد نے صدر مملکت سے علیحدہ علیحدہ طویل ملاقاتیں کیں، جس میں عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایوان صدر کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان منصور عثمان اعوان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چار ارکان کے ہمراہ ایوان صدر میں صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کی، جس میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں اور انتخابات کے حوالے سے کی گئی پیش رفت کو سنا اور تفصیلی بحث کے بعد اجلاس نے متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات 8فروری 2024کو کرانے پر اتفاق کیا۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں ارکان نے صدر پاکستان سے ایوان صدر میں میں الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں ملاقات کی۔ اعلامیے کے مطابق متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن مورخہ 8فروری بروز جمعرات منعقد ہوں گے۔ اس سے قبل ملک میں 90روز میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ الیکشن کمیشن 11فروری 2024ء کو ملک میں الیکشن کرانے کے لیے تیار ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صدر مملکت سے آج ہی مشاورت کرکے جمعہ کو عدالت میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق آگاہ کیا جائے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف انتخابات چاہتی ہے کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، انتخابات کی جو بھی تاریخ رکھی جائے اس پر سب کے دستخط ہوں اور اس تاریخ میں کسی قسم کی توسیع نہیں ہوگی، سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے، عدالت صرف اس مسئلے کا حل چاہتی ہے تکنیکی پہلوئوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔ عام انتخابات کی تاریخ کا سامنے آنا، یقیناً بڑی پیش رفت ہے اور اس کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی تھی۔ بعض حلقے انتخابات کے التوا کی افواہیں اُڑاتے نہیں تھک رہے تھے۔ اس فیصلے کے بعد یہ تمام دعوے باطل ثابت ہوئے ہیں۔ عام انتخابات کی حتمی تاریخ سامنے آنے کے بعد سیاسی گہما گہمی میں اضافہ متوقع ہے۔ سیاسی دنگل جیتنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں کوششیں کرتی دِکھائی دیں گی۔ نگراں حکومت پہلی ہی شفاف انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بھرپور معاونت کا یقین دلاتی رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ملک میں عام انتخابات کے لیے بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے اور اس حوالے سے اُس کی تیاریاں مکمل قرار دی جارہی ہیں۔ ضروری ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد انتہائی شفاف ہے، اس پر کسی کو بھی انگلی اُٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس حوالے سے تمام تر اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ عوام انتخابات کے سلسلے میں ہونے والی پولنگ میں بھرپور شرکت کریں اور ایسی حکومت کو اپنا نمائندہ منتخب کریں جو ملک و قوم کو لاحق مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوسکے۔ ملکی معیشت کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ ملک پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے۔ مہنگائی کے سلسلے ہیں اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں، جن کا ایک منتخب جمہوری حکومت ہی بہتر طور پر حل نکالنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
بھارت میں اقلیتوں پر جبر کیخلاف امریکی قرارداد
بھارت کی جانب سے شائننگ انڈیا کا پروپیگنڈا بڑے طمطراق سے کیا جاتا ہے، لیکن حقائق افسوس ناک حد تک ہولناک ہیں۔ اقلیتوں کی زندگی جہنم ہے۔ اُن کے ساتھ انسانیت سوز واقعات عام ہیں۔ خصوصاً مسلمان زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے ساتھ ہر سطح پر بدترین تعصب برتا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور اُنہیں عجیب و غریب قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ کبھی معمولی سی بات پر اسکول سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ملازمتوں کے حوالے سے بھی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے مقابلے میں نچلی یا سطحی روزگار میسر آپاتا ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد تو صورت حال اور سنگین ہوگئی ہے۔ بھارت میں ہندوانتہا پسندی شدّت اختیار کر چکی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کا جب جی چاہتا ہے، ہجوم کسی بے گناہ مسلمان سے کوئی جھوٹا الزام لگاکر حقِ زیست چھین لیتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی عصمتوں کی پامالی کے واقعات ہولناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اس حوالے سے ڈھیروں واقعات بھارت پر سیاہ داغ کی مانند ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کی آزادیوں پر قدغن ہے۔ اُنہیں سیاسی اور مذہبی میدان میں کھل کر مواقع میسر نہیں۔ قدغنوں کے سلسلے ہیں۔ عیسائیوں، سِکھوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے نماز جمعہ کے اجتماعات پر کئی مقامات پر پابندیاں ہیں۔ کئی مساجد اور مزارات کو شہید کیا جاچکا ہے۔ گرجوں پر حملے کیے جاچکے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں۔ مذہبی عبادات کی راہ میں روڑے اٹکانا مودی حکومت کا وتیرہ ہے۔ سیاست میں بھی انتہاپسند ہندوئوں کا غلبہ ہے۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو بے پناہ مشکلات جھیلنی پڑتی ہیں۔ مظالم سہنے پڑتے اور مقدمات سے واسطہ پڑتا ہے۔ بدترین تعصب کا نشانہ بنتے ہیں۔ بھارت سرکار کو ان مذموم حرکتوں سے باز رکھنے کی ضرورت کافی عرصے سے خاصی شدّت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ مہذب دُنیا کے مہذب لوگ ان اوامر سے بے خبر نہیں۔ اُنہیں بھارت کے جبر کا ناصرف ادراک ہے، بلکہ وہ اس کے خاتمے کے بھی متمنی ہیں۔گزشتہ روز بھارت میں جاری مذہبی اور سیاسی جبر کے خلاف امریکی سینیٹ میں قرارداد پیش کردی گئی، قرارداد سینیٹر ٹامی بالڈون نے پیش کی، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت بھارت میں جاری امتیازی پالیسیوں کا معاملہ اُٹھائے۔ بھارت کی حکومت مسلمانوں اور عیسائیوں سے امتیازی سلوک کرتی ہے۔ مذہبی آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے، کوئی بھی ملک مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرے تو امریکا کو کھڑا ہونا چاہیے، بھارت معصوم شہریوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ امریکی سینیٹ میں پیش کردہ قرارداد لائق تحسین ہے۔ بھارت کو مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کی عبادات میں خلل کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح سیاست میں بھی تمام بھارتیوں کا حصہ لینے کا حق ہے، اس پر ہندوانتہاپسندوں کا اجارہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ہندو انتہا پسند اکثریت کو خوش کرنے کے لیے مودی کی اس بھونڈی روش کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ مہذب دُنیا اس کے تدارک کے لیے اگر اپنا کردار نبھاتی ہے تو یہ انتہائی احسن اقدام قرار پائے گا۔

جواب دیں

Back to top button