
سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اقصیٰ مسجد پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا اور مشرقی یروشلم اور ویسٹ بینک کے ساتھ ساتھ اسے اسرائیل میں ضم کر لیا تھا۔
اس سے قبل یہ علاقہ مصر اور اردن کے کنٹرول میں ہوا کرتا تھا تاہم اسرائیل کے اس قبضے کو بین الاقوامی سطح پر کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
الاقصیٰ کمپلیکس کے حوالے سے اسرائیل اور اردن کے درمیان 1967 کے معاہدے کے مطابق اردن کے وقف بورڈ کو مسجد کے اندر کے انتظام کی ذمہ داری ملی جبکہ اسرائیل کو بیرونی سکیورٹی کے انتظامات کی ذمہ داری ملی۔
الاقصی میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کے سرکاری طور پر اردن کے ہاشمی بادشاہ ناظم الامور ہیں اور وہی آج بھی اسلامی وقف کے اراکین کو نامزد کرتے ہیں جن کے ذریعے یہاں کا نظام چلایا جاتا ہے۔
ایک معاہدے کے مطابق غیر مسلم افراد بھی اس مقام پر آ سکتے ہیں لیکن مسجد کے احاطے میں صرف مسلمانوں کو عبادت کی اجازت ہے۔
اسرائیل کے مذہبی پیشواؤں نے یہودیوں پر ٹیمپل ماؤنٹ میں داخلے کی پابندی عائد کر رکھی ہے کیوںکہ یہودیت کے عقائد کے مطابق یہ جگہ اتنی مقدس ہے کہ لوگوں کو یہاں داخل نہیں ہونا چاہیے۔
اسرائیلی حکومت کے قواعد کے تحت مسیحی اور یہودی اس مقام کا دورہ بطور سیاح کر سکتے ہیں اور وہ بھی ہفتے میں صرف پانچ دن کے دوران چار گھنٹوں کے لیے۔
اس کمپلیکس کی مغربی دیوار کو ’ویلنگ دیوار‘ یا دیوار گریہ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شاہ سلمان کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کا ایک یہی اصلی حصہ باقی بچا ہے۔
مسلمان اسے ’دیوار البراق‘ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پیغمبر اسلام نے ’البراق‘ کو باندھا تھا۔







