Column

آئیے نئی شروعات کرتے ہیں

صفدر علی حیدری

زندگی ایک سفر کا نام ہے ۔۔ ایک مسلسل سفر۔۔۔ یہ منزل نہیں راستہ ہے ۔۔ منزل کا سب سے اہم پڑائو سمجھ لیجئے ۔۔ حدیث میں اسے آخرت کی کھیتی قرار دیا گیا ہے۔ اور کسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ منزل کی طرف جاتے ہوئے منزل سے بھی زیادہ اہمیت راستے کی ہوتی ہے۔۔ اور راستے سے زیادہ اس بات کی کہ وہ جس راستے پر ہم گامزن ہے وہ راستی والا بھی ہے یا نہیں ۔۔ ہم ایک اجنبی دنیا کے مسافر ہیں سو قدم قدم پر ہمیں بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس راستے پر رہبر ایک تو رہزن بت شمار ملتے ہیں۔ جبھی تو ہمیں ہر نماز میں صراط مستقیم کی دعا مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کہ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔۔ ہماری ہمیشہ ہدایت کرتا رہ ۔۔ انعام یافتہ لوگوں کے راستے کی۔ گمراہوں کے راستے کی نہیں نہ سزا یافتہ لوگوں کے راستے کی ۔ اب اگر ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ ہم راہ سے ہٹ گئے ہیں تو ہمیں فوراً یوٹرن لے لینا چاہیے ۔ آج دل کرتا ہے آپ سے دل کی باتیں کی جائیں ۔ وہ باتیں جو دل سے نکلتی ہیں اور دل جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ، پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے، کچھ دن قبل میں نے سورہ والضحی کی تلاوت سنی۔ اس کی حلاوت روح میں اتر گئی ۔ میں چاہتا ہوں آپ لوگ بھی اس سے محروم نہ رہیں۔ نئی شروعات کا تعلق بھی اسی سورہ سے ہے تو آئیے چلتے ہیں کتاب ہدایت کی طرف موجودہ ترتیب میں اس سورہ کا نمبر 93ہے اور آیات گیارہ ہیں۔ سورہ مکی ہے اور ایک ہی بار میں نازل ہوئی۔ سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ ابتدائی ایات کے نزول کے بعد کچھ عرصہ کے لیے وحی کا سلسلہ رک گیا ( فترت کا یہ عرصہ بعض روایات کے مطابق تین سال اور بعض میں چھ ماہ ) یہ بات ختمی المرتبت پر شاک گزری۔ آپ غم زدہ رہنے لگے۔ کسی پل چین نہ ملتا تھا۔ رب تعالیٰ سے اپنے حبیب کی یہ حالت دیکھی نہ گئی تو یہ سورۃ نازل فرمائی۔ آفتاب کی روشنی کی قسم۔۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے۔۔ اے محمدؐ تمہارے پروردگار نے تجھے تنہا چھوڑا نہیں نہ ناراض ہوا۔۔ اور آخرت تمہارے لیے دنیا سے بہتر ہے۔۔ عنقریب تجھے وہ کچھ عطا کرے گا کہ تم راضی ہو جائو گے۔۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پایا تو جگہ نہیں دی، بے شک دی۔۔ تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو راستے کی ہدایات کر دی۔۔ اور تنگ دست پایا تو غنی کر دیا۔۔ تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔۔ اور مانگنے والے کو مت جھڑکنا۔۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا چرچا کرتے رہنا۔۔ یہ ان گیارہ آیات کا ترجمہ ہے۔ اب اس کہ وضاحت میں اپنے فہم سے کرتا ہوں اور اسی سے میرا مقصد حاصل ہو گا ، ان شاء اللہ۔ روشنی سے مراد یہ ہے کہ جب انسان خوش ہوتا، نعمتوں کی فراوانی اسے حاصل ہوتی ہے تو اسے سب کچھ اچھا لگتا ہے، یہ دنیا اسے روشن روشن لگتی ہے، لیکن جب وہ کسی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو اسے ہر طرف تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارا خالق یہ بتا رہا ہے کہ ان دونوں صورتوں کا خالق وہ خود ہے۔ نور تو اس کا فضل ہے مگر تاریکی بندے کے ہاتھ کی کمائی ۔۔ وہ دنوں کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔ اگر پہلے روشنی تھی اور اب اندھیرا تو اسے بدلنے پر بھی وہ قادر ہے۔ اب تاریکی کے سبب بندہ مایوس ہے تو اس نے آگے تسلی دلائی ہے کہ ہم نے تجھے تنہا نہیں چھوڑا اور نہ ناراض ہوا ہے۔ ( اگر وہ ہے بھی تو منایا بھی تو جا سکتا ہے ) اس سے بڑی تسلی اور کیا ہو گی کہ اس نے تنہا نہیں چھوڑا۔ اس سے آگے خالق اکبر انسان کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر کتنے احسانات کئے ہیں۔ یتیم کو پناہ دینا، مسافر کو راستہ بتا دینا، تنگ دست کو غنی کر دینا ۔۔ یہ وہ احسانات ہیں کہ جن کا انسان شکر کرنے لگے اور تمام عمر کرتا رہے تب بھی اس کی طبیعت سیر نہ ہو۔ اس سے قبل یہ بھی ارشاد فرمایا کہ عنقریب ہم تو تجھے اتنا دیں گے کہ تم راضی ہو جائو گے۔ ایمان داری سے بتائیے کیا اس کے بعد بھی انسان کا پریشان ہونا بنتا ہے۔ آخری حصے میں فرمایا کہ یتیم پر ستم کرنا نہ فقیر کو جھڑکنا اور یہ کہ اس کی نعمتوں کا چرچا کرتے رہنا۔۔ معاش آج کی اکثریت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ باقی تمام باتیں اسی کا ضمنی اثر ہوتی ہیں ۔ میرے مخالفت وہ اکثر لوگ ہیں کہ جو دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے اہل و عیال کو پھر بھی راضی نہیں کر پاتے۔ خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے گھر والوں کو خوش نہیں کر پاتے اور یوں نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان سب کو نوید ہو کہ اسی ایک سورہ مبارکہ کی تلاوت کر کے یا سن کے وہ اپنی ساری پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ اس کے معاشی مسائل کا سبب کیا ہے۔ صرف اور صرف یہ کہ اس نے شکر نہیں کیا۔ ہمیں کچھ نہ ملے تو واویلا کرتے ہیں اور سب کچھ مل جانے کے بعد بھی چرچا نہیں کرتے سو طرح طرح کے مسائل ہمیں گھیر لیتے ہیں۔ انسان کے تمام مسائل کا حل سورۃ والضحی نے پیش کر دیا ہے کہ انسان شکر کرنے سے اپنے سارے مساءل پر قابو پا لیتا ہے۔ اور شکر الحمدللہ کی تسبیح پڑھنے سے ادا نہیں ہوتا۔ شکر کی احسن صورت یہ ہے کہ اس کی عطا کی گئی نعمتوں کو معصیت کے لیے استعمال نہ کرو ۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ معاشرے کے پیسے ہوئے طبقات کا خیال رکھو ۔ ان کو جھڑکو نہ ان پر ستم کرو ۔ ایسا کرو گے تو وہ تمہیں وہ سب کچھ دے گا جو انسان خواہش کرے گا۔ اور اہم ترین امر یہ کہ واویلا مت کرو چرچا کرو۔۔ اپنے پروردگار کا چرچا ، اس کی نعمتوں کا پرچار کرو۔ سورۃ رحمان میں رب رحمان نے یونہی تو بار بار نہیں روکا ’’ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے ‘‘ پس جھٹلانے والے نہ بنو ۔۔ وہ راضی ہو جائے گا ۔۔ تمہیں سب کچھ دان کر دے گا ۔۔ وہ بھی جو بندے نے مانگا بھی نہیں ہو گا۔ ان شاء اللہ تو پھر آئیے ناں، دیر کس بات کی ہے ۔۔ ’’ آئیے نئی شروعات کرتے ہیں‘‘۔

جواب دیں

Back to top button