لیڈر چاہیے یا ڈیلر

روہیل اکبر
پاکستان کی سیاست اور معیشت دونوں آج ڈیلروں کے ہاتھ میں ہے، جو ہر کام میں اپنا مفاد پہلے رکھتے ہیں، اس کے بعد اگلی بات طے ہوتی ہے۔ اسی لیے تو سیاست میں سیاستدان ختم ہوگئے، جو رہ گئے تھے، انہیں چلہ کشی کے بعد سیاستدان سے ڈیلر بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایک سیاسی لیڈر جب جلسہ کرتا ہے تو پھر اسے کروڑوں روپے خرچ کرکے عوام اکٹھی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ لوگ خود ہی نکلتے ہیں اپنے لیڈر کو دیکھنے کے لیے، سننے کے لیے اور اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اور ایسے جلسوں میں کسی کو پیسوں کا لالچ ہوتا ہے نہ ہی بریانی کے ڈبے کا بلکہ لوگ اپنے خرچے پر جلسہ گاہ آتے ہیں۔ مینار پاکستان میں ہونے والے جلسہ میں حکومتی سرپرستی تو تھی ہی، ساتھ میں پیسہ بھی تقسیم کیا گیا، جو ایک اچھی بات تھی، ویسے بھی ہمارے پاس اب روزگار تو ہے نہیں، مہنگائی نے جینا مشکل کر رکھا ہے۔ ان حالات میں اگر میڈیا انڈسٹری، ٹرانسپورٹ انڈسٹری اور عام آدمی کا بھلا ہوگیا، کسی کو ایک دن کا راشن مل گیا، تو کسی کو ایک ماہ کا خرچہ مل گیا اور کسی نے تو سال بھر کی کسر نکال لی۔ یہ ماحول پہلے الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتا تھا، پیسے دیکر شناختی کارڈ رکھ لیے جاتے تھے اور پھر ان ووٹوں کو اپنے حق میں ڈلوایا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ووٹوں کی خرید و فروخت میں جتنے ماہر ہیں اس سے زیاد ہ یہ لوگ بندے خریدنے میں بھی ماہر ہیں۔ لاہور کی آبادی اس وقت سوا کروڑ سے زائد ہے، اگر میاں نواز شریف کے استقبالیہ جلسے میں صرف لاہور سے ہی 2فیصد لوگ شامل ہوتے تو دو لاکھ سے زائد کا مجمع صرف لاہوریوں کا ہی ہوجانا تھا لیکن اس جلسے میں لوگوں کو لانے کے لیے ملک بھر سے خصوصی ٹرینیں چلیں، ہر ضلع کی انتظامیہ نے بسوں کو پکڑ پکڑ کر ن لیگیوں کے حوالے کیا، پیسوں کا لالچ دیا گیا اور نہ جانے کیا کیا وعدے کیے گئے، لیکن اس کے باوجود اتنا بڑا جلسہ نہ ہوسکا جتنا بڑا انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس جلسے کو عمران خان کے جلسے سے بھی ملانے کی کوشش کی اور ان کا خیال ہے کہ 2011ء میں تحریک انصاف کا جلسہ جنرل پاشا نے کامیاب کرایا تھا۔ میں صرف انہیں اتنا کہوں گا کہ وہ 21اکتوبر کے اس جلسے کو بغور دیکھیں اور سوچیںکہ3ماہ کی میڈیا مارکیٹنگ، ساری ریاستی مشینری کا آزادانہ استعمال، عوام کو پیسے اور کھانے کا لالچ، سیکیورٹی فورسز کے سیلوٹ اور درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کی حاضری، یہ سب مل کر 4بار حکومت کرنے والی جماعت کا جلسہ کامیاب نہیں کرا سکے تو 2011ء کے جلسے سے پہلے تحریک انصاف کی کبھی حکومت بھی نہیں تھی تو جنرل پاشا نے اکیلے جلسہ کامیاب کیسے کرا دیا۔ میاں نواز شریف کے جلسے کا اگر محتاط انداز میں تخمینہ لگایا جائے تو پرنٹ میڈیا پر اشتہارات تقریبا 6کروڑ، الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات تقریبا 14کروڑ، لوکل کیبل ٹی وی پر اشتہارات تقریبا 4.5کروڑ، پروڈکشن ہائوس کے ذریعے ویڈیو پروڈکشن کے اخراجات تقریبا ڈیڑھ کروڑ، فلیکس بینرز وغیرہ کے اخراجات تقریبا 8لاکھ فی ڈسٹرکٹ اوسطاً 5کروڑ، سوشل میڈیا مہم کے اخراجات تقریبا 1.3کروڑ، بسوں ٹرینوں ویگنوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات تقریبا 27کروڑ، پرائیویٹ گاڑیوں کے اخراجات تقریبا 60لاکھ، جلسے کے انتظامات وغیرہ تقریبا 5کروڑ، کھانے پینے کا انتظام تقریبا 5کروڑ، یہ کم و بیش تقریبا 72سے 73کروڑ کے لگ بھگ رقم بنتی ہے جبکہ اصل رقم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اور حکومتی ایجنسیوں کی اندر کھاتے والی رپورٹ کے مطابق جلسے میں 40سے 42ہزار لوگ تھے، یعنی ایک بندے پر اٹھنے والا خرچ تقریباً 17ہزار روپے بنتا ہے۔ ان اخراجات میں وہ 2000سے 5000فی کس جو نقد دئیے گئے ہیں، ان لوگوں کو وہ بھی اگر شامل کر لیں تو جلسے کے اندازاً اخراجات ایک ارب کے لگ بھگ بنتے ہیں اور فی بندہ خرچہ 20سے 22ہزار بن جاتا ہے، یہ تمام اخراجات کم از کم تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کے علاوہ چارٹرڈ فلائٹس، ہیلی کاپٹر کے اخراجات، پھولوں کی پتیاں اور دیگر ششکوں کے خرچے وہ الگ ہیں، جو اس میں شامل نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پورے پاکستان سے ایک لاکھ لوگ بھی جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔ اگر میاں نواز شریف عوامی لیڈر ہوتے تو پھر ہر شہر سے صرف 5ہزار لوگ بھی نکلتے تو صرف پنجاب سے پانچ لاکھ سے زائد بندہ ہونا چاہیے تھا۔ سندھ ،کے پی کے اور دیگر علاقوں سے لائے گئے لوگوں کی تو بعد میں گنتی شروع ہونا تھی، کیونکہ پنجاب کے اضلاع کی آبادی اوسطا 35لاکھ ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 12لاکھ ہے اور اس کے اردگرد کے 5اضلاع کی کل آبادی 2کروڑ سے زائد بنتی ہے، اب آپ جلسے میں لائے جانے والوں کی تعداد دیکھ کر میاں صاحب کی مقبولیت اور قبولیت کا اندازہ لگا لیں۔ رہی بات ان کی تقریر کی جس میں ان کے چہرے پر مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا، نہ ہی انہوں نے ماڈل ٹائون واقعہ کا ذکر کیا اور نہ ہی انہوں نے بے گناہ افراد کی گرفتاریوں کی مذمت کی، لیکن مہنگائی کا رونا روتے رہے اور ساتھ میں اپنا اور بھائی کا دور بھول گئے، اصل میں اس سارے کھیل کا مقصد ایک سزا یافتہ مجرم کو پروٹوکول کے ساتھ لانے والے طاقتوروں کا پیغام بھی ہے۔ مجھے تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی بے بسی بھی یاد ہے اور ان کی ملک کے لیے خدمات کا اعتراف بھی ہے، جبکہ دوسری طرف دیکھتا ہوں تو ایسے شخص پر پھول کی پتیاں نچھاور کرنے سے پہلے ہماری ایوی ایشن اتھارٹی میاں صاحب کا طیارہ فضا میں دیکھتے ہی خوش آمدید کا نعرہ لگاتی ہے جس نے کارگل سے لے کر اپنے آرمی چیف پرویز مشرف کا طیارہ دشمن ملک اتارنے کا حکم دیا، ممبئی حملوں کا الزام اپنی فوج پر لگایا، ڈان لیکس کے ذریعے ملکی سلامتی سے کھیلا اور اب اسی شخص کو چوتھی بار حکمرانی دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ میاں نواز شریف پاکستان سے اپنا علاج کرانے باہر گئے تھے اور پھر لندن، دبئی، جدہ سے کلیرنس اور سب یقین دہانیوں کے بعد ان کی ملک واپسی ممکن ہوئی، جبکہ دہلی اور واشنگٹن سے blessingsبھی آ چکی ہے اور مقامی یقین دہانی بھی بھر پور ہے۔ اسی ڈیل کے نتیجہ میں میاں صاحب پاکستان واپس تشریف لائے، اب چھانگا مانگا سیاست کے بانی کو دیکھتے ہیں وہ کیا نئی حکمت عملی اپناتے ہیں، کیونکہ اس وقت ان کے مقابلے میں بھی کوئی نہیں اور میدان بھی صاف ہے۔ لیڈروں کے اس بحران میں جہاں ڈیلر ہی ڈیلر ہوں، وہاں پیپلز پارٹی تو ویسے بھی اپنے زخم چاٹ رہی ہے اور سمجھتی ہے کہ میثاق جمہوریت کا اصل فائدہ تو میاں نوازشریف نے اٹھایا جبکہ جنہوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا وہ عوام ہیں، جنہیں اب دیکھنا چاہیے کہ انہیں لیڈر چاہیے یا ڈیلر۔





