پنجاب میں سرکاری ملازمین کی کامیابی

رفیع صحرائی
بارہ روزہ کامیاب ہڑتال، بائیکاٹ، دھرنوں اور ریلیوں کے انعقاد کے بعد پنجاب میں سرکاری ملازمین حکومت سے اپنے تمام مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری ملازمین کا یہ احتجاج تاریخ ساز تھا۔ ملازمین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں ہر حال میں یہ جنگ جیتنا تھی۔ ان کی شکست ملازمین کا معاشی قتل تھی چنانچہ وہ کشتیاں جلا کر میدان میں اترے تھے۔ خواتین سرکاری ملازمین خصوصاً ٹیچرز نے جس طرح شانہ بشانہ مردوں کا ساتھ دیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی بہت اچھے منتظم اور جناب شہباز شریف کی طرح انتھک وزیرِ اعلیٰ ثابت ہوئے ہیں، جو ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں۔ اس سیماب صفت وزیرِ اعلیٰ نے کم عرصہ میں اپنے آپ کو منوا لیا ہے، مگر وزارتِ اعلیٰ کا منصب پھولوں کی سیج ہو بھی تو ان پھولوں کے ساتھ ایسے کانٹے لگے ہوتے ہیں جو صرف اپنی چبھن کا احساس ہی نہیں دلاتے بلکہ باقاعدہ چبھتے بھی رہتے ہیں۔ اس منصب کو نفع و نقصان سمیت قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس منصب کا تقاضا ہے کہ من مانی نہیں کی جا سکتی۔ لانے والوں کے اشاروں پر متحرک بھی ہونا پڑتا ہے۔ پنشن اور لیو انکیشمنٹ رولز میں ترامیم اور سرکاری سکولوں کی پرائیویٹائزیشن جناب محسن نقوی کی پالیسیاں نہ تھیں۔ ان کا کام الیکشن کرانا تھا مگر ان کے پیش رو انہیں اس شرط کے ساتھ اس منصب پر لے کر آئے تھے کہ سیاسی مجبوریوں کے تحت جو کام وہ کوشش کے باوجود نہیں کر سکے تھے وہ کام جناب محسن نقوی سے کرایا جائے۔ محترم عمران خان صاحب اور ن لیگ پرائیویٹائزیشن کے حق میں رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے محکمہ تعلیم سمیت تمام سرکاری اداروں میں چھانٹی اور پنشن و تنخواہوں کا خزانے پر بوجھ کم کرنے کا معاہدہ عمران خان نے کیا تھا مگر دیگر وعدہ خلافیوں کی طرح وہ اس معاہدے پر بھی اپنی سیاست کو بچانے کی خاطر پورا نہ اتر سکے۔ جب میاں شہباز شریف کو حکومت ملی تو عمران خان کا کیا دھرا ان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور آئی ایم ایف نے حکومت کی ناک رگڑوا دی مگر معاہدہ پھر بھی نہ کیا۔ بالآخر میاں شہباز شریف بذاتِ خود میدان میں اترے اور کڑی شرائط پر آئی ایم ایف پروگرام بحال کرا لیا۔ ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک کا ایجنڈا انہیں وراثت میں ملا مگر وہ خود اس پر عملدرآمد نہ کرا سکے کہ عوام کو بدترین مہنگائی کا تحفہ دے کر پہلے ہی عوام میں غیر مقبول ہو چکے تھے۔ تاہم انہوں نے آئی ایم ایف کے آگے سچا ہونے کے لیے پنجاب کی نگران حکومت کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ہی سالانہ بجٹ کے موقع پر پنجاب کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں مرکز اور دیگر صوبوں کی نسبت بہت کم ریلیف دینے کو کہا مگر ملازمین کے شدید احتجاج کے بعد وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جناب احمد خان نے میاں شہباز شریف کی ایما پر سرکاری ملازمین کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بعد وفاق کی طرز پر تنخواہوں اور پنشن میں ریلیف دلانے کی یقین دہانی کرا دی۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ مذاکرات میں جناب محسن نقوی یا ان کے کسی وزیر کو شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ جاتے جاتے میاں شہباز شریف نگرانوں کے ہاتھ مضبوط کر گئے جس کی وجہ سے ملازمین پر’’ دوسرا حملہ‘‘ کیا گیا۔ ملازمین بھی دس اکتوبر کو نئے جوش کے ساتھ میدان میں نکل آئے۔ ان پر پولیس کے ذریعے تشدد کرایا گیا۔ مقدمات قائم کئے گئے اور انہیں جیلوں میں بھی ڈالا گیا۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین کی تنظیم اگیگا کے صدر جناب رحمان باجوہ سمیت تمام قیادت جیلوں میں بند کر دی گئی مگر سرکاری ملازمین سیاسی ورکر تو نہ تھے جو اپنی قیادت کے جیل میں جانے کے بعد خاموشی سے بیٹھ جاتے۔ ان کے احتجاج میں مزید شدت آ گئی۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں ڈیوٹی دینے سے اساتذہ نے انکار کر دیا۔ بعض جگہوں پر متبادل امتحانی عملے کو سینٹر بننے والے سکولوں میں گھسنے بھی نہیں دیا گیا۔ سرکاری دفاتر کا تمام نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ سرکاری ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے حکومتی نظام جب مفلوج ہو کر رہ گیا تو ایسے میں مسلم لیگ ن کے مرکزی لیڈر جناب احمد خان ایک مرتبہ پھر آگے بڑھے۔ ملازمین کی لیڈرشپ سے ان کے مذاکرات ہوئے مگر یہ وزنی بوجھ ان کی سکت سے زیادہ تھا چنانچہ اگلے دن مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کے ساتھ اگیگا قائدین کی ملاقات کا بندوبست کیا گیا اور انہوں نے مذاکرات کے بعد سرکاری ملازمین کے تمام مطالبات منظور کرانے کی یقین دہانی کرا دی، جس پر اگیگا قائدین نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جناب محسن نقوی نے بھی اگلے ہی روز فرمایا کہ پنجاب میں کوئی سرکاری سکول پرائیویٹ کیا جائے گا نہ ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ معاملہ تو کبھی کسی میٹنگ میں زیرِ بحث آیا ہی نہیں۔ اب حالات معمول پر آ چکے ہیں۔ ملازمین نے اپنی جرات، بہادری اور یک جہتی سے اپنے معاشی قتل کی سازش کو ناکام بنانے کے علاوہ تعلیم کو مہنگا اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونے سے بھی بچا لیا ہے۔ آنے والی منتخب حکومت جب آئی ایم ایف کے پاس نئے پروگرام کے لیے جائے گی تو یقیناً سرکاری ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے آئی ایم ایف اپنی ملازم کُش پالیسی پر نظرِ ثانی کر چکا ہو گا۔ اس طرح نئی حکومت کے لیے ملازمین کا یہ احتجاج ڈھال کا کام دے گا۔ یعنی ملازمین بھی خوش اور آنے والی حکومت بھی خوش۔ قربانی کا بکرا صرف نگران حکومت بنی۔ اس گرد میں چند بہت اچھے کام بھی دھندلا گئے۔





